جینا بھی عذاب 35

سزا کے بعد؟

سزا کے بعد؟

جمہور کی آواز
ایم سرور صدیقی
تحریک انصاف کو PDM کی حکومت سے بہت سے گلے شکوے ہیں انہیں 9مئی اور 26نومبر کے حوالے سے بہت سے تحفظات ہیں اسی تناظرمیںPTI نے مذاکرات کیلئے 2تحریری مطالبات بھی پیش کردئیے ہیں کہ عمران خان کی ر ہائی اور آزاد و غیرجانبدارانہ جوڈیشل کمیشن کاقیام شامل ہیں جبکہ سابق ویزر ِ اعظم کا موقف ہے کہ ملٹری کورٹس سے تحریک ِ انصاف کے کارکنوںکو سزا دینا انصاف کے منافی ہے۔ملک میں جاری سیاسی کشیدگی کے خاتمہ کے لئے پیشتر پاکستانیوںکا خیال ہے کہ ہر مسٔلے کا حل مذاکرات ہی ہے

اس لئے حکومت اور پی ٹی آئی نے حالات کی سنگینی کااحساس کرتے ہوئے قومی مفاہمت کے لئے بات چیت کا آغاز کردیا جس کے دو اجلاس ہوچکے ہیں حکومت پر دبائو ڈالنے کیلئے PTI نے پارلیمنٹ کے اندر اور باہر تمام اپوزیشن جماعتوں ایک پلیٹ فارم پر متحد کرنے کی حکمت ِ عملی تیارکرلی ہے پیر صاحب پگاڑا، سے بھی رابطہ کرلیا گیا ہے حامیوںکا دعویٰ ہے کہPTI جمہوریت بچانے کیلئے جدوجہد کر رہی ہے بہرحال ملک کے موجودہ سیاسی حالات کا جائزہ لیا جائے تو احساس ہوتاہے13چھوٹی بڑی پارٹیوں پرمشتمل اتحاد PDM کا ہدف عمران خان کو وزیر ِ اعظم کے منصب سے ہٹاناتھا کامیابی کے باوجود اب حکمرانوں نے ہر صورت عمران خان کا راستہ روکنے کا عزم کررکھا ہے تاکہ یہ اتحاد 5سال پورے کرلے اور اقتدار میں رہ کر آئندہ کیلئے بھی سیاسی راہ ہموار کی جائے جو ماحول جارہاہے اس میںPDM کی حکومت کامیاب دکھائی دے رہے ہیں

کیونکہ آج PTI کے کارکن تتر بتر ہوچکے ہیں9مئی اور 26نومبر کو جو کچھ ہوا اس کا خوف و ہراس اس قدر شدید ہے کہ فی الحال کارکن سڑکوںپر آنے کیلئے تیار نہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ حکمران اتحاد بھی ایک ان دیکھے خوف میں مبتلا ہے اس لئے شریف برادران کا ہدف ہے کہ PTI کو مزید کمزور کرکے عمران خان ہمیشہ کیلئے سیاست سے نکال باہر کرے اور ان کے حامیوںکو دیوار کے ساتھ لگائے بغیر وہ چین سے حکومت نہیں کرسکیں گے لگتاہے وہ اسی فلسفے پر عمل پیرا ہیں کیونکہ پنجاب کے بغیر PDM کی حکومت یا دوسرے لفظوں میں کہا جاسکتاہے

بالخصوص شریف خاندان کی بادشاہت ادھوری ہے۔نون لیگ کے رہنما رانا ثنا اللہ نے کہا ہے کہ بانی پی ٹی آئی کے القادر یونیورسٹی کیس کے فیصلے سے مذاکرات کا کوئی تعلق نہیں ہونا چاہئے چونکہ بانی پی ٹی آئی کو القادر ٹرسٹ کیس میں نیب آرڈیننس 1999 کے تحت مجرم قرار دیا جاتا ہے، بانی پی ٹی آئی کو 14 سال قید بامشقت اور 10 لاکھ جرمانے کی سزا سنائی جاچکی ہے۔تحریری فیصلے میں کہا گیا ہے کہ بشریٰ بی بی کو کرپشن میں سہولت کاری اور معاونت پر مجرم قرار دیا جاتا ہے، انہیں 7 سال قید بامشقت اور 5 لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنائی جاتی ہے جبکہ القادر ٹرسٹ کی پراپرٹی وفاقی حکومت کے سپرد کی جاتی ہے۔

لیکن چونکہ عمران خان اور ان کی اہلیہ کو سزا سنائی جاچکی ہے تو یقینا اس کا اثر مذاکرات پر ہوگا جو کوئی نیک شگون نہیں ہے یہ عمران خان کے مخالفین کے لئے تو اچھی خبر ہوسکتی ہے لیکن بانی PTI کو کوئی فرق نہیں پڑنے والا ایک تو وہ پہلے ہی قریباً2 سال سے جیل میں ہیں وہ حکومت سے کسی بھی قسم کی ڈیل بھی نہیںکرنا چاہتے ،کسی مراعات کا تقاضا بھی نہیں کررہے۔ لیکن وہ جیل میں رہیں یا جیل سے باہر حکومت کے لئے ضرور مشکلات پیدا کرسکتے ہیں اور وہ یقینا ایسا کریں گے بہرحال عمران خان کو ایک اور کیس میں سزا کے بعد مذاکرات عملاً ختم ہوکررہ گئے ہیں یقینا بارپھر ملک اپنے نازک ترین دور سے گذررہاہے

سیاست میں عدم برداشت، جمہوریت کے خلاف سازشیں عروج پر ہیں پوری قوم ایک ہیجانی کیفیت میں مبتلاہے اس ماحول میں حکومت کو چاہیے کہ PTI کے جیلوں میں بند سینکڑوں کارکنوںکو جذبہ ٔ خیر سگالی کے تحت عام معافی دے کررہا کردے اس سے حکومت کی نیک نامی بھی ہوسکی اور سیاست میں بڑھک رہی آگ ٹھنڈی ہونے میںمددبھی ملے گی یہ اقدام نفرت کی سیاست میں تریاق کا کام کرسکتاہے اس کے ساتھ ساتھ مذاکرات کا عمل جاری رہنا چاہیے کیونکہ مذاکرات ہی سے مسائل کا حل ممکن ہے

لیکن اس کیلئے ضروری ہے کہ اچھی سوچ کے تحت جامع بات چیت ہونی چاہیے اور مذاکراتی ٹیم کا باختیار ہونا نتیجہ خیز ثابت ہوگا اس کے ساتھ ساتھ مذاکراتی عمل کا ٹائم فریم ہونا چاہیے وقت کی نزاکت دیکھتے ہوئے ٹھنڈے دل و دماغ سے کئے گئے فیصلوںکی نتائج تاریخ رقم کرتے ہیں وگرنہ بانی پی ٹی آئی کو القادر ٹرسٹ کیس میں سزا کے بعد مذاکرات پر سوالیہ نشان تو لگ ہی گیاہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں