24

فضائی آلودگی سے نجات کیلئے عملی اقدام ضروری !

فضائی آلودگی سے نجات کیلئے عملی اقدام ضروری !

اس وقت ملک کو دیگر چیلنجز کے ساتھ ماحو لیاتی چیلنج بھی در پیش ہے ،اس سے نمٹنے کیلئے مناسب مالی وسائل کی دستیابی بہت ضروری ہے، لیکن موجودہ معاشی حالات کے ساتھ پاکستان خود سے ماحولیات میں اتنی زیادہ سرمایہ کاری نہیں کر سکتا ہے،وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کا کہنا ہے کہ پاکستان کو ماحولیاتی مسائل سے نمٹنے کیلئے 2030ء تک 348ارب ڈالر کی خطیر رقم درکار ہو گی، لیکن انہوں نے بتایا نہیں کہ یہ رقم کہاں سے آئے گی اور کیسے ما حو لیاتی چیلنج سے نمٹا جائے گا ۔
یہ ہر دور اقتدار میں حکو متی وزراء کا وتیرا رہا ہے کہ مسائل کی نشاندہی تو کی جاتی ہے ،مگر اُن کے تدارک بارے کچھ کیا جاتا ہے نہ ہی بتایا جاتا ہے ، کیو نکہ ان کی تر جیھات میں مسائل کا تدارک کبھی نہیں رہا ہے ، اس لیے ہی ہر سال بڑھتی شدید موسمیاتی تبدیلیاں پاکستان کا خاصہ بن چکی ہیں، سائنسی تحقیق کے مطابق ماحولیاتی آلودگی کی وجہ سے ہماری جسمانی اور دماغی کارکردگی بری طرح متاثر ہورہی ہے، اس آلودگی کی وجہ سے ہمارے موسموں اور بارشوں کے ادوار بھی شدید متاثر ہورہے ہیں،

جبکہ ہمیشہ کی طرح ریاست، بارش کی تباہ کاریوں کو مکمل طور پر نظر انداز کرنے کی روش اختیار کیے ہوئے ہیں، سیاست دان اور بیوروکریٹ اپنے دفاتر چھوڑکر منظرِ عام سے ہی غائب ہوجاتے ہیں، تاکہ عوامی غیظ وغضب سے بچا جاسکے ،انھیں معلوم ہے کہ موجودہ معاشی بحران اور بھیانک کرپشن میں عوام کو کسی قسم کا ریلیف نہیں دیا جا سکتا ہے۔
یہ بات نہیں ہے کہ یہاں ادارے نہیں ہیں ، یہاں ادارے ہیں ،مگر ان کا کار کر دگی نہ ہو نے کے برابر ہے ،نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) کا ادارہ2007 میں بنایا گیا، اس ادارے کے بنیادی فرائض میں سے ایک بحران کے انتظام اور آفات زدہ علاقوں میں کیے جانے والے امدادی کاموں سے متعلق پالیسیاں بنانا اور ان پر عمل درآمد کرنا ہے، حکومتی سطح پر قومی موسمیاتی پالیسی ترتیب دی جاتی رہی ہیں

،لیکن صد افسوس کہ سیاسی عدم دلچسپی کی بنا پر اس پر عمل درآمد کبھی نہیں ہو سکا ہے ، گزشتہ دور اقتدار میں پی ٹی آئی حکومت نے درخت لگانے کی مہم بھی شروع کی تھی، جو کہ ناکامی سے دوچار ہوئی،اس کے باعث اب پاکستان کی فضائیں زہریلی ہو چکی ہیں، ندیاں چشمے اور دریا، بدبودار ہو چکے ہیں،
خوفناک بیماریاں، تیر رفتاری سے پھیل رہی ہیں۔ ملک میں فصلوں کی پیداوار، اناج کی غذائیت اور مویشیوں کی پیداواری صلاحیت کم ہو رہی ہے۔
ایک تحقیق کے مطابق ماحولیاتی تنزلی سے ہر سال پاکستانی معیشت کو تقریباً پانچ سو ارب روپے کا نہ صرف نقصان ہو رہا ہے ، بلکہ اس میں بتدریج اضافہ بھی ہو رہا ہے، اس سے ملک کے دیگر مسائل بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔ جنگلات کو آگ لگانے سے فضائی آلودگی میں اضافہ ہو رہا ہے جس کی وجہ سے جنگلی حیاتیات پر بھی اثر پڑ رہا ہے، جنگلی جانوروں کی تعداد کم ہو رہی ہے اور کافی حد تک ان کی نسلیں ختم ہو رہی ہیں۔ اس کے علاوہ آکسیجن کی کمی اور کاربن ڈائی آکسائیڈ کی زیادتی کا باعث بن رہا ہے

،پاکستان خطے میں کم جنگلات والے ممالک میں شامل ہو چکا ہے، اس کا صرف 4 فیصد جنگلات پر مشتمل ہے اوزون لیئر فضائی آلودگی کی وجہ سے سب سے زیادہ متاثر ہو رہی ہے، جوکہ زمین پر انسانی زندگی کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے، ساحلی علاقوں میں مینگروز کے جنگلات میں کمی، خطرے کی جانب ایک اور قدم ہے۔
ہم فضائی آلودگی کے ٓنتہائی خطرات سے دوچار ہیں ، اس کے باوجود در خت لگانے کے بجائے درخت کاٹے جارہے ہیں،ٹمبر مافیا اپنے منافع کے لیے کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہے، اس کے ساتھ اکیسویں صدی میں آج بھی لوگ کھانا پکانے کے لیے لکڑی استعمال کر رہے ہیں،شمالی علاقہ جات میں درختوں کی غیر قانونی کٹائی ایک معمول ہے، اس کے باعث دہائیوں پہلے جو علاقے جنگلات تھے، آج بنجر ہو چکے ہیں،اس پر کوئی تو جہ دی جارہی ہے نہ ہی فضائی آلودگی کا باعث بننے والے عوامل کا تدارک کیا جارہا ہے، ہماری ناقص پالیسیوں کی وجہ سے ماحولیاتی آلودگی میں مسلسل اضافہ ہی ہو رہا ہے

، بڑے ، چھوٹے شہروں میں جگہ جگہ گندگی کے ڈھیر ، سڑ کوں پر دھواں چھوڑتی رکشہ ، گاڑر ربڑ پگھلانے والی فیکٹریاںیاں اور بھی ماحول کو بری طرح متاثر کر ر ہے ہیں، جب کہ ماحولیاتی آلودگی جلد، آنکھوں اور سانس کی بہت سی بیماریوں کا باعث بن رہی ہے۔
اس سارے تناظر میں آلودگی کے خاتمے کے لیے جتنے بھی اقدامات کیے جائیں کم ہیں، حکومت پاکستان کو چاہیے کہ فضائی آلودگی کے سد باب اور پانی کے ذخائر کو ضایع ہونے سے بچانے کے لیے عوامی آگاہی مہم کا آغازکرے، بارشوں اور سیلابوں کے پانی کو محفوظ کرنے کے لیے مزید ڈیم تعمیرکیے جائیں ،تاکہ کم سے کم انسان کا جانی و مالی نقصان ہو،شہروں اور دیہاتوں میں سیوریج کے نظام، تعلیم اور صحت کی سہولیات کو بہتر بنایا جائے ،بچوں کو تعلیمی اداروں میں ان موضوعات پر تربیت دی جائے،

صفائی پر کس قسم کا سمجھوتہ نہ کرتے ہوئے نہ صرف کوڑا جلانے پر پابندی اور جرمانہ رکھا جائے، بلکہ اس پر سکتی سے عملد رآمد بھی کر یا جائے ، ایسی تمام گاڑیوں، فیکٹریوں اور ملوں پرپا بندی لگائی جائے، جو کہ فضا میں آلودگی بڑھا رہے ہیں۔
کیا فضائی آلودگی کے سد باب کیلئے کچھ ہو پائے گا ، شاید کچھ بھی نہیں ہو پائے گا ، کیو نکہ یہاں پر ما حولیاتی آلودگی پر بڑی بڑی کا نفر نسیں تو ہو تی ہی رہتی ہیں ، تجاویز بھی پیش کی جاتی رہتی ہیں اور ان پر عمل کر نے کا تہیہ بھی کیا جاتا رہا ہے ، لیکن اس کے بعد کچھ بھی نہیں کیا جاتا رہا ہے ، اب ایک اور اسلام آباد میں ما حولیات کی بڑی کا نفر نس ہو رہی ہے، ،حکومت وقت کو ا س فکر انگیز کانفر میں ماہرین کی تجاویز پر غوروفکر کے بعد عمل پیرا ہونا چاہیے، کیو نکہ ہر بار گفت و شنید ہی کافی نہیں، مشکلات سے نجات، لاحق چیلنجوںکے خلاف عملی اقدام سے ہی ممکن ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں