مذاکرات آگے بڑھانے کا عندیہ ! 21

مذاکرات آگے بڑھانے کا عندیہ !

مذاکرات آگے بڑھانے کا عندیہ !

ملک میں مذاکرات کا شور تو بہت ہے ،مگر مذاکرات کا اونٹ کسی کروٹ بیٹھ ہی نہیں رہا ہے، گزشتہ ہفتے پی ٹی آئی نے تین مذاکراتی ادوار کے بعد حکومت کی جانب سے نو مئی اور چھبیس نومبر کے واقعات کی تحقیقات کیلئے عدالتی کمیشن نہ بنانے پر مذاکرات کا سلسلہ معطل کر دیا تھا،تاہم وزیراعظم شہباز شریف نے تحریک انصاف کو پارلیمانی کمیٹی بنانے کی پیشکش کرتے ہوئے مذاکراتی عمل کو آگے بڑھانے کا عندیہ دیا ہے ،جبکہ وزیراعظم کی جانب سے پارلیمانی کمیٹی بنانے کی پیشکش کو پی ٹی آئی کے چیئرمین بیرسٹر گوہر نے یہ کہتے ہوئے مسترد کر دیا ہے کہ ہائوس کمیٹی بنانے کی تجویز بہتر نہیں‘ عدالتی کمیشن پر ہی لوگوں کا اعتماد ہوتا ہے۔
اس میں کوئی دورائے نہیں ہے

کہ ہمارے ہاں پارلیمانی کمیٹی اور عدالتی کمیشنوں کی تاریخ کوئی قابلِ رشک نہیں رہی ہے اور انکی رپورٹس پر بھی جانبداری کے الزامات لگتے رہے ہیں، لیکن اس ملک میں آگے بڑھنے کیلئے کوئی ایک آپشن کو مانا ہی پڑے گا، حکومت نے ایک بار پھر مزاکراتی عمل جاری رکھنے کی پیش کش کی ہے،اس حکومتی پیشکش پر اپوزیشن کے جو بھی تحفظات ہوں‘ انہیں آپس میں بیٹھ کر طے کیا جا سکتا ہے ، لیکن اس کیلئے مذاکراتی بیٹھک کو بحال کرنا ضروری ہے، پی ٹی آئی کی جارحانہ سیاست نہ ماضی میں کوئی حل نکال سکی نہ ہی اس سے آگے کسی بہتری کی توقع کی جاسکتی ہے، اس سے معاملات مزید خراب اور مشکلات میں اضافہ ہی ہو سکتا ہے۔
ہماری سیاسی قیادت کو سمجھنا چاہیے کہ سیاسی اختلافات ایک حد سے بڑھ جائیں تو قوم میں تقسیم کو ہوا دینا شروع کر دیتے ہیں، جبکہ اس عمل کا نقصان وفاق اور صوبوں میں عدم اشتراک، بلکہ بعض معاملات میں ایک دوسرے کے مدمقابل کھڑا ہونے کی صورت میں بھی نظر آتا ہے ،سیاسی جماعتوں میں نظری اختلافات ضرور ہو نا چاہئے ،یہ ایک فطری بات ہے، مگر جب یہ اختلاف ذاتی عناد کی صورت اختیار کر لے تو سماج میں بگاڑ پیدا ہونے لگتا ہے، اس سے اجتناب بہرطور ضروری ہے اور جمہوری سیاست میں اس عمل کو مکالمے اور مذاکرات کے ذریعے ہی روکا جاتا ہے‘ اس جا نب ہی سیاسی قیادت کی توجہ مسلسل مبذول کرائی جا رہی ہے، مگر سیاسی قیادت اپنے طرزِ عمل کے مضمرات سے بے پروا‘ اس روش پر ہی کاربند ہے، جو کہ سیاسی تنائو کو مزید بڑھاوا ہی دے رہا ہے۔
اس وقت حکومت اور اپوزیشن دونوں کا ہی مطمح نظر اپنے حریف پر سبقت لے جانا ہے، جبکہ ملک و عوام کا کوئی سوچ ہی نہیں رہا ہے، ملک میں بے روزگاری اور مہنگائی کی کیا شرح ہے‘ لوگوں کیلئے بنیادی سہولتوں کے حصول کا کیا عالم ہے‘ ملکی معیشت بہتری کے باوجود کن خطرات کی زد میں ہے‘ یہ مسائل نہ تو سیاسی قیادت کی بنیادی ترجیحات میں شامل نظر آتے ہیں نہ ہی منتخب ایوانوں میں ان پر بحث ہو رہی ہے ،

اس وقت ملک کو درپیش مسائل یا وفاقی و صوبائی حکومتوں کی کارکردگی ،سیاسی بحث کا حصہ ہی نہیں ہے، اگر اپوزیشن حکومت کے خلاف سراپا احتجاج ہے تو اس کی وجہ بیروزگاری‘ ٹیکسوں کی بھرمار‘ بھاری یوٹیلیٹی بل اور مستقبل کی بے یقینی نہیں ہے، بلکہ یہ ساری محاذ آرائی اپنے سیاسی مفاد کیلئے کی جارہی ہے۔
اگر اپوزیشن کے پاس مذاکرات سے راہِ فرار اختیار کر کے سیاسی تنائو کو کم کرنے کا کوئی طریقہ ہے تو اسے پیش کیا جانا چاہیے، تاکہ اس کے قابلِ عمل ہونے پر بحث ہو سکے‘ دوسری صورت یہ ہے کہ تنائو کو کم کرتے ہوئے سیاسی درجہ حرارت کو متوازن کرنے کی کوشش کرنی چاہیے اور مل بیٹھ کر افہام و تفہیم سے مسائل کا حل نکالنا چاہیے ،یہ ہی جمہوری سیاست کا تقاضا ہے اور یہ ہی وقت کی ضرورت ہے ، اس وقت سیاسی جماعتوں کو جس باہمی اعتماد کے بحران کا سامنا ہے، اس شگاف کو پُر کرنے کیلئے ضروری ہے کہ ایک دوسرے کیلئے نرم گوشہ پیدا کیا جائے، اس پارلیمانی سطح پر مذاکراتی کمیٹیوں کے مل بیٹھنے سے امکان ظا ہر کیا جارہا تھا کہ باہمی فاصلوں میں کمی آئے گی،

مگر اس عمل کی پیش رفت کے آڑے شرائط پی ٹی آئی کی شرائط آ گئیں،ان حالات میں ایک بار پھر وزیراعظم کی تجویز ایک قابلِ عمل پیشکش معلوم ہوتی ہے، اس پر ٹھنڈے دل سے غور کیا جانا چاہئے اور معاملات سلجھانے کیلئے آگے بڑھنا چاہئے ،مذاکرات کی کامیابی کے لیے فریقین کی جانب سے لچک انتہائی ضروری ہے، دونوں اطراف کو چاہیے کہ اپنے مؤقف پر اڑے رہنے کے بجائے ایک دوسرے کے مؤقف کو سمجھنے اور اُس میں ہی اپنا مؤقف ڈھالنے کی کوشش کریں، اس سے نہ صرف مذاکرات کا عمل آسان ہو گا ،بلکہ اس کا نتیجہ بھی بہتر ہو گا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں