بلوچ کے زخم پر مر ہم رکھا جائے !
ملک کا ایک اہم صوبہ بلو چستان جل رہا ہے اور میاں نواز شریف کا بڑی دیر بعد خیال آیا ہے کہ بلو چستان کی سیاسی قیادت کے ساتھ مل کر معاملات سلجھا سکتے ہیں ، بڑی دیر کر دی مہر بان آتے آتے ، مگر دیر آئید درست آئید ہی سہی،میاں نواز شریف کو خیال تو آیا ہے اور اس خیال کو عملی شکل دینے کیلئے ایک بار پھر ڈاکٹرعبدالمالک بلوچ اُن کے پاس پہنچے ہیں، حالانکہ اس موقع پرمیاں نواز شریف اور آصف علی زرداری کو اُن کے پاس جانا چاہئے تھا ، لیکن یہاں سب کچھ ہی مختلف ہوتا ہے ، پیاساکنوئیں کے پاس جاتا ہے ،مگر یہاں کنواں پیاسے کے پاس آرہا ہے اور پیاس بجھانے کی گزارش کررہا ہے،
ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کا میاں نواز شریف سے ملاقات کے بعد کہنا ہے کہ میاں نواز شریف نے بلوچستان کے مسائل کو مل کر حل کر نے کی یقین دہانی کرائی ہے ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ برسر اقتدار جماعت کے سربراہ کے طور پر میاںنواز شریف ملکی سیاست میں افہام وتفہیم اور معاملات کو ٹھنڈا کرنے میں جو کردار ادا کر سکتے ہیں‘ وہ شائدکوئی دوسرا نہیں کر سکتا ہے، اس کی بڑی وجہ نہ صرف تین بار ملک کے وزیراعظم کے عہدے پر رہنا ہے ، بلکہ بلوچستان میں ان کی جماعت کا گہرا اثر ورسوخ بھی رکھنا ہے
،اس میں صدر زرداری کو بھی میاں برادران کے کندھے سے کندھا ملانا چاہئے، بلو چستان میں اتحادی حکو مت ہے اور اتحادی قیادت مل کر معاملات سلجھا سکتی ہے، لیکن اس سے قبل سب کوہی کھلے دل سے تسلیم بھی کرنا چاہیے کہ بلوچستان کے معاملے میں روزِ اول سے ہی غیر مساوی رویہ رکھاگیا ہے اور اس ریاستی بے اعتنائی نے بلوچستان میں سیاسی بیگانگی اور پسماندگی کو جنم دیا ہے،بلو چستان کے ناراض بلوچوں میں سب ہی ہتھیار بند نہیں ہیں،
اس میںزیادہ تر سیاسی بندوبست اور مروج سیاسی نظام سے نالاں ہیں، اگران سے کھلے دل سے بات چیت کی جائے‘ انہیں ماضی کی غلطیوں کو سدھارنے اور شفاف انتخابات کی ضمانت دی جائے اور صوبے کے مسئلے کو سیاسی طریقے سے حل کرنے کی کوشش کی جائے تو نہ صرف امن و امان کی صورتحال میں نمایاں بہتری آئے گی ،بلکہ صوبے میں ترقی کے نئے امکانات بھی روشن ہو جائیں گے۔
اس کیلئے حکو مت اور طاقتور حلقوں کو اپنی پا لیسی کو بدلنا ہو گا اور بلو چستان میں امن لانا ہو گا،اگر بلو جستان میں ام ہو جائے تو بہت کچھ ہو سکتا ہے،سی پیک جیسا منصوبہ بلوچستان میں غیر معمولی معاشی امکانات پیدا کر سکتا ہے،معدنیاتی منصوبہ پورے ملک کو ہی بد حالی کی دلدل سے نکلال سکتا ہے،لیکن اس کیلئے قیام امن شرط ہے اور قیام امن بندوق سے نہیں ، ڈائیلاگ سے ہی آئے گا،لیکن دائیلاگ کون کرے گا
اور کس سے کرے گا ،اس بارے غور کر نا ہو گا ، بلوچ عوام کی حقیقی قیادت کو سامنے لانا ہو گا اور ان سے ہی معاملات کو آگے بڑھانا ہو گا ،لیکن اس سے پہلے مذاکرات کا ماحول بنانے کیلئے بھی کچھ کر نا ہو گا،احتجاج کر نے والوں کے کچھ مطالبات کو ماننا ہو گا اور انہیں یقین دلا ہو گا کہ اس بار ان کے ساتھ کوئی بد عہدی نہیں ہو گی ، اس بار جو کچھ طے کیا جائے گا ،اس پر منوعن عمل بھی کیا جائے گا، اس سے دونوں جانب کا اعتماد بھال ہو گا اور معاملات آگے بڑھ پائیں گے۔
یہ امر خوش آئند ہے
کہ اہل سیاست مکالمے کی ضرورت کا احساس رکھتے ہیں تو اہل ریاست کو بھی مکالمے کی ضرورت کا احساس کر نا چاہئے ، اس وقت بلوچستان میں دھرنوں اور لانگ مارچ کی ایک بڑی وجہ صوبے کی سیاسی قیادت بالخصوص خواتین کی گرفتاری اور نظر بندی ہے ،یہ کوئی ایسا معاملہ نہیں ہے ،جو کہ مذاکرات اور افہام و تفہیم سے حل نہ ہو سکے، اگر بلوچ عوام کے زخموں پر مرہم رکھا جائے ، ماضی کی غلطیوں کو نہ دہرانے کا عزم کیا جائے تو بلوچستان کے حالات میں دنوں میں بہتری لائی جا سکتی ہے،لیکن اس کیلئے اہل سیاست ، اہل ریاست اور بلوچ عوام کو ایک نئے عزم کے ساتھ ایک پیج پر آنا ہو گا
اور مل بیٹھ کر ہی معاملات کو آگے بڑھانا ہو گا ، اگر کوئی اپنی سیاست چمکانے آرہا ہے یا کوئی ایک بار پھر عوام ور غلانے آرہا ہے اور کوئی نیا بیانیہ بنانے آرہا ہے تو اس سے معالات سلجھنے کے بجائے مزید الجھ جائیں گے ، اس وقت بات کتنی آگے نکل گئی ہے ،اس کا ادراک ہر ایک کوہی کر نا چاہئے اور بلو چستان کی ا ٓگ میں مزید تیل ڈالنے کے بجائے بجھاناچاہئے،یہ آگ طاقت سے نہیں ، مکالمے سے ہی بجھے گی ،اس کا آغاز جو مکالمہ کر نا چاہتے ہیں ،اُن سے مکالمہ کر کے کیا جاسکتا ہے ، ناراض بلوچ کے زخم پر مرہم رکھ کر کیا جاسکتا ہے ،اس کے بعد ہی قیام امن ہو پائے گا اور ملک ترقی و خوشحالی کی راہ پر گامزن ہو پائے گا۔