126

عباس پورطلبہ ایکشن کمیٹی کے زیر اہتمام تاریخ جموں کشمیر کو نصاب کا حصہ بنانے اور طلبہ یونین کی بحالی کے لیئے باقاعدہ تحریک کا آغاز کر دیا گیا ہے،

عباس پورطلبہ ایکشن کمیٹی کے زیر اہتمام تاریخ جموں کشمیر کو نصاب کا حصہ بنانے اور طلبہ یونین کی بحالی کے لیئے باقاعدہ تحریک کا آغاز کر دیا گیا ہے،

آزاد کشمیر (امجد اقبال تنولی نمائندہ خصوصی )عباس پورطلبہ ایکشن کمیٹی کے زیر اہتمام تاریخ جموں کشمیر کو نصاب کا حصہ بنانے اور طلبہ یونین کی بحالی کے لیئے باقاعدہ تحریک کا آغاز کر دیا گیا ہے، آج ابتدائی پروگرام میں ڈگری کالج سے ایک ریلی نکالی گئی جس نے پورے بازار کا چکر کاٹ کہ چوک میں جلسہ گی شکل اختیار کر لی۔





ریلی سے خطاب کرتے ہوئے مقررین نے کہا کہ تاریخ کے بغیر قوم کی مثال ایک کٹی پتنگ جیسی ہے جسکی کوئی منزل نہیں ہوتی ۔اور یہ طلبہ کا بنیادی حق ہے کہ وہ نصاب میں اپنی تاریخ پڑھیں ۔المیہ یہ ہے کہ بیس کیمپ کی حکومت بجائے آذادی کے جدوجہد کہ ذاتی عیاشیوں میں مشغول ہے




اور آذادی کے نام پہ قائم لبریشن سیل اپنا کردار نہیں ادا کر رہا ۔طلبہ کا مزید کہنا تھا کہ جب تک سیاسی نرسریاں طلبہ یونین بحال نہ ہو ۔سیاسی نظام عدم استحکام کا شکار رہے گا اور گالی گلوچ کا کلچر ختم نہیں سکے گا۔اس لیئے یہ ضروری ہے کہ قانون سازی میں معاشرے کے باشعور طبقے کو شامل کیا جائے




تاکہ سیاسی نظام میں اصلاحات آ سکیں ،آج کے دور میں رکشہ یونین بھی موجود ہے جو ان کے حقوق کی محافظ ہے لیکن طلبہ یونین پہ پابندی ہے۔طلبہ یونین پہ پابندی کی وجہ سے سیاسی نظام محض چند گھرانوں کے ذاتی مفادات تک محدوہو کہ رہ گیا ہے ۔فیسوں میں اتنا اضافہ کیا گیا ہے




کہ ایک غریب تعلیم کے حق سے ہی محروم ہو کر رہ گیا ہے۔ہم یہ چاہتے ہیں کہ ہر طالب علم کو تعلیم کا حق حاصل ہو اس وقت طلبہ یونین کی بحالی کے لیئے جو آوازیں بلند ہو رہی ہیں ہم انکی مکمل حمایت کرتے ہیں ۔اور امید کرتے ہیں کہ جلد یہ پابندی عملاً ختم ہو جائے گی۔صدر طلبہ ایکشن کمیٹی نے صدراتی خطاب میں کہا




کہ طلبہ ایکشن کمیٹی اپنے جائز مطالبات کے حصول کے لیئے اپنا دائرہ کار مزید وسیع کرتے ہوئے پوری ریاست کے طلبہ کو اس تحریک میں شامل کرے گی ،اب یہ حکومت پہ ہے کہ وہ کتنے جلدی ان جائز مطالبات کو پورا کرتی ہے۔جو دراصل حکومت کی ہی ذمہ داریوں میں شامل ہیں ۔




اور اسی میں آنے والی نسلوں کی بقاء ہے۔باقی اگر اسکو سنجیدہ نہ لیا گیا تو تاریخ شاہد ہے کہ طلبہ کے سامنے بڑے بڑے آمروں نے گھٹنے ٹیک دیے تھے ہم وہ حق بھی محفوظ رکھتے ہیں مگر آخری حل کے طور پہ




اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں