کشمیریوں اور ہندوستانی فوج کے درمیان تازہ ترین جھڑپوں میں 19 کشمیری شہید اور 350 زخمی ہو گئے۔ زخمیوں میں سے 50 کو گولیاں لگیں اور 41 کشمیری پیلٹ گن کے استعمال کی وجہ سے ایک یا دونوں آنکھوں سے معذور ہوگئے۔ ہندوستانی فورسز نے 2010 سے کشمیریوں پر پیلٹ گنز کے ذریعے لوہے کے چھّروں سے وار کرنے کا آغاز کر رکھا ہے۔
یہ ظلم نیا نہیں! لیکن نہ کشمیریوں کی آزادی کا جنون ختم ہوگا اور نہ ہی یہ ظلم۔
حقِ خود ارادیت کی جدوجہد میں کشمیریوں نے گذشتہ 30 سالوں میں بہت سے حربے آزمائے ہیں۔ خصوصاً امریکا میں ہونے والے 11 ستمبر کے حملوں کے بعد کشمیریوں نے اپنی جنگ کو نیا موڑ دیا اور مسلح مزاحمت کو ترک کرکے عوامی تحریک کے راستے کو اپنا لیا۔
2008، 2009 اور 2010 میں کشمیری عوام نے کھل کر بغاوت کی۔ 2016 میں برہان وانی کے قتل کے بعد ایک دفعہ پھر عوام اٹھ کھڑے ہوئے، یہی وجہ ہے کہ بھارتی قابض افواج نے کشمیریوں کا غم و غصہ دیکھتے ہوئے جبر کی انتہا کر دی اور ان کی آواز کو دبانے کے لیے بندوق، آنسو گیس، چھّروں اور پاوا شیلز کا آزادانہ استعمال کیا گیا۔
عسکری طاقت کے بل بوتے پر کشمیریوں کو منتشر کرنے کے علاوہ بھارت کا یہ بھی ارادہ ہے کہ آزادی کے خلاف موقف رکھنے والی جماعتوں، مثلاً پی ڈی پی، جو کہ اس وقت حکومت کر رہی ہے، کو فروغ دیا جائے اور حریت کانفرنس کی طرح کے آزادی کے حمایتی گروپ اور ان کے حواریوں کو غیر موثر کر دیا جائے۔
بھارت کی حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی جیت کے بعد سے کشمیریوں میں آزادی کا جنون ایک بار پھر زور پکڑ چکا ہے۔ 2014 میں بی جے پی نے پی ڈی پی سے الحاق کیا اور کشمیر کے انتخابات میں کامیابی حاصل ہوئی۔ اس کے بعد سے مظاہرین کے خلاف سخت سے سخت کارروائی کی پالیسی پر عمل شروع کر دیا گیا اور یوں بھارت کی حامی جماعتوں کو عوام میں جو تھوڑی بہت حمایت مل رہی تھی، وہ بھی ختم ہوگئی۔
بی جے پی نے بہترین چال چلتے ہوئے کشمیر کی جنگ کو بھارت کی بقاء کی جنگ قرار دے دیا۔
جب وادی میں حد سے زیادہ ظلم بڑھ گیا تو 90 کی دہائی کے بعد پیدا ہونے والے کشمیری نوجوانوں نے بندوق اٹھا لی اور ان نوجوانوں سے یہ جنگ جیتنے کے لیے حکومت نے بے رحمی کی انتہا کردی۔ 2016 میں 100 کشمیری شہید کیے گئے اور 100 سے زائد کی بینائی چھین لی گئی۔ اس سے پہلے دنیا نے کسی بھی ریاست کو اپنے ہی شہریوں کو اندھا کرتے نہ دیکھا تھا۔ ساتھ ہی بی جے پی نے حریت رہنماؤں کو بھی گرفتار کرلیا۔
2016 سے آج تک 260 کشمیری شہید اور 16 ہزار زخمی ہوچکے ہیں، لیکن آزادی کی تحریک ختم نہ ہوئی۔ بلکہ اب تو اسکول کے طلبا بھی تحریک کا حصہ بن چکے ہیں۔ یہ سچ ہے کہ جتنا کشمیریوں کو دبایا جائے گا، اتنا ہی ان کا جذبہ پختہ ہوتا جائے گا۔
یہ بھارت کی ہار نہیں تو اور کیا ہے کہ وادی میں کہیں بھی ریاستی رِٹ نہیں رہی اور اس کا ڈر بھی ختم ہوگیا ہے، جس کی وجہ سے معلوم ہوتا ہے کہ خون کی ہولی اُس وقت تک ختم نہیں ہوگی جب تک کوئی سیاسی حل نہ ڈھونڈ لیا جائے اور فی الحال تو سیاسی حل ناممکن لگتا ہے۔
اگلے انتخابات تک حکومت اپنے من پسند صحافیوں کو استعمال کرکے ایک بار پھر لوگوں کو ووٹ ڈالنے پر مجبور کرلے گی اور حریت کانفرنس کے قائدین کو دہشت گرد قرار دیا جائے گا۔ ایک مشہور کشمیری تجزیہ نگار پروفیسر شیخ شوکت حسین نے حال ہی میں فیس بک پر لکھا، ‘دفن کر دینے سے معاملات ختم نہیں ہوتے، بلکہ اس طرح پودے کھلتے ہیں اور پھر ظالموں کو اپنے ظلم کی فصل کاٹنی پڑتی ہے’۔
بھارت کے عوام اس بات کو بخوبی سمجھتے ہیں، لیکن حکومت کو اب بھی یہ بات سمجھ نہیں آ رہی!
وسیم خالد مقبوضہ کشمیر میں صحافت کے شعبے سے منسلک ہیں۔