Site icon FS Media Network | Latest live Breaking News updates today in Urdu

کمرہ پھولوں کی خوشبو سے مہک رہا تھا

کمرہ پھولوں کی خوشبو سے مہک رہا تھا

کمرہ پھولوں کی خوشبو سے مہک رہا تھا

امتحان۔ حنا وہاب۔ کراچی

کمرہ پھولوں کی خوشبو سے مہک رہا تھا پاس رکھے گجرے کائی گرین سوٹ اور اس کے ساتھ کنڑاسٹ گلابی دوپٹہ ساتھ میں میچنگ چوڑیاں جوتی مہندی سرمہ سب کچھ تو رکھا تھا اس کمرے میں وہ کافی دنوں سے اسی کمرے کی مقیم تھی جس کے ایک کونے میں اس کا سنگل بیڈ تھا تو دوسرے کونے میں رکھا صوفہ دیوار پر لگی اس کے مرحوم والدین کی تصویر تھی ساتھ میں گھڑی جس کی رفتار اب تو اسے ازبر ہو چکی تھی کیونکہ اس کے ساتھ اس کی سانسیں بھی تو چلتی تھی

دوسری دیوار پر ایک خوبصورت سینری تھی جس میں ابھرتے سورج کا منظر بہت واضح تھا ایسا کہ ابھی اجالا ہو جائے گا اور اس کے ساتھ اس نے ایک اور تصویر لگا رکھی تھی جس سے وہ رات بھر باتیں کرتی تھی جو اس کو دیکھ کر مسکرایا کرتا تھا ۔کمرا بہت بڑا تو نہیں تھا مگر اتنا تو تھا کہ اس کی ضرورت کی ساری چیزیں اس میں آ سکیں اسے اب چاہیے بھی کیا تھا

وہ کپڑوں رنگوں اور چوڑیوں کی بہت شوقین تھی اتنی ہر سرد اور گرم موسم میں اسکا بازار کا چکر لازمی تھا اور بہانے بہانے کے بلوں کی تو تعداد نہیں تھی اور دلوانے والے نے بھی کیا خوب فطرت پائی تھی کہ وہ اسے کو پہنا اوڑھا دیکھ کر نہال ہوتا تھا کبھی جو اس کی کسی بات پر ناں کی ہو جیسا چاہتی ویسا پاتی اور پہننے کے بعد جو رنگ روپ آتا تو اچھے اچھے جل کر خاک ہو جاتے مگر وہ کہاں خاطر میں لانے والی تھی اپنی زندگی میں خوش اور مگن،روای چین ہی چین لکھ رہا تھا اگر وہ نہ ہوا ہوتا تو۔۔۔۔

آج اس کے آنے والے ان کپڑوں میں کوئی چاہت نہیں تھی

”کیا کرتی وہ ان رنگوں اور چوڑیوں کا ”

”کیوں پہنوں کیا سنگھار کروں”

” کس کے لیے”

” کیا شادیانے بجانے کا وقت ہے جو سجوں”

باہر سے آنے والی آوازیں جو اسی کے بارے میں بات کر رہی تھی اسے اور اضطراب میں مبتلا کر رہی تھی

”کیوں ہوں میں موضوع بحث کیوں”

” مجھے میرے حال پر کیوں نہیں چھوڑ دیا جاتا ”

اس کے دماغ میں سوالوں کی جنگ چھڑی تھی مگر جواب کسی کے پاس نہیں تھا اس کے نقصان کی کوئی بھرپائی کرنے والا نہیں تھا

مگر سب لوگ بس اسی کے منتظر تھے کہ کب وہ باہر آیے ان تمام تر لوازمات کے ساتھ جو اس کے لیے ڈھیر کیے گئے ہیں

یہاں بات اس کی پسند اور ناپسند کی نہیں تھی بلکہ بات اس کے دل کی تھی جو کسی چیز کے لیے راضی نہ تھا اس کے کمرے کا کوناکونا اس کی بیتی راتوں کا گواہ تھا کہاں وہ سو پاتی تھی رات بھر اس کا تکیہ رات بھر گیلا ہوتا اور دن کی روشنی اس کو سکھا دیا کرتی تھی اور وہ پھر خود کو مصروف کرنے کی کوشش کرتی

کمرے میں آنے والی اس کی بڑی بہن تھیں جو اس کے لیے ماں کے درجے پر تھی آنکھوں میں آنسو بھرے تھے مگر ساتھ میں التجاء بھی تھی کہ وہ بات مان جائے بہن کا ہاتھ تھام کر وہ تڑپ اٹھی

” باجی نہیں ہو گا مجھ سے سنگھار یہ چوڑیاں یہ مہندی،سرمہ ہاں میں میں رنگین کپڑے پہن لیتی ہوں مگر تم یاد رکھنا میں ان کے ساتھ ہی مر گئی ہوں نہیں ہے مجھ میں حوصلہ جینے کا کیا کروں ان کپڑوں کا چیزوں کا کس کو دکھاؤں وہ تو چلا گیا جو ان سب کو دیکھ کر خوش ہوتا تھا ”

کمرہ اس کی سسکیوں سے گونج اٹھا کمرے میں آنے والی بہن جو اسے سمجھانے آئی تھی خود اس کے ساتھ سسکیوں سے رو رہی تھی

آج اسکی عدت مکمل ہو رہی تھی چار ماہ دس اس کے لیے قیامت جتنے لمبے تھے لوگوں کے لیے وہ شاید ایک دورانیہ ہوں مگر اس کے لیے گھڑی کی سوئی کی رفتار سے چلنے والی اذیت کے دن تھے اس کا محبوب شوہر اس کو چھوڑ کے جا چکا تھا اپنے خالق حقیقی کے پاس کہ جہاں سے کوئی لوٹ کر نہیں آتا وہ کیا کرتی کس کے سہارے زندگی گزارتی اللہ تعالیٰ نے گود بھی سونی رکھی مگر کبھی اسے اس محبوب نے محسوس ہی نہ ہونے دیا الٹا نئی نویلی دلہن کی طرح سجا دیکھ کر ہی شاداب ہو جاتا۔

آج شریعت کے حساب سے وہ آزاد تھی مگر کہاں اس کی روح تو قبر میں اس کے محبوب کے پاس تھی اور ایک زندہ لاشہ تھا جسے وہ اٹھائے پھر رہی تھی بھائیوں کی محبتوں کو خدا سدا سلامت رکھے مگر گھرہستی کے اجڑنے کا غم بہت سفاک تھا تنکا تنکا جوڑ کے اس نے آشیانہ بنایا تھا مگر موت کے ایک جھٹکے نے اسے برباد کر دیا۔

لوگوں نے اسے طرح طرح سے پکارا قسمت کی کھوٹی،بیاولاد مگر وہ سہہ گیی اس کی جدائی بھی تو سہہ ہی رہی تھی بہن نے پھر گلے لگایا اور بھائیوں کے انتظار کا کہا تو ہمت کرکے وہ اٹھی اور کپڑے بدلنے اٹھی دیوار پر لگی تصویر کو غور سے دیکھا تو گویا وہ اسی کو دیکھ کر مسکرا رہا تھا بس یہی بات اب اس کے ساتھ رہنے والی تھی سنگھار تو اس کا چلا گیا تھا تو پھر چوڑیوں کا وہ کیا کرتی۔۔۔۔۔۔ دل میں تو وہی تھا ناں خوبصورت یاد بن کر

Exit mobile version