خود فریبی سے نکلیے جناب
حنا وھاب کراچی
آپ نے کبھی خود پر ہنس کر دیکھا ہے بہت مزہ آتا ہے اتنا کہ آپ کو لگتا ہے یہ اچھا مشغلہ ہے سچ مانیے تو ڈپریشن جیسے مرض سے نجات بھی ہو جائے گی کیسے۔
۔دیکھیے اس کے لیے حوصلے کی ضرورت ہے اور وہ حوصلہ اب تو سب کے ہی پاس ہوتا ہے دوسروں کو برداشت کرنے کا کسی ایسی کی باتوں کو سہنے کا جو شاید آپ کا باس ہو، شوہر،بیوی،نند،ساس،پڑوسی،استاد،جیٹھ،دیور۔۔۔۔۔ کوئی بھی ہو سکتا ہے تو جب آپ ان سب کی باتیں سن اور برداشت کر سکتے ہیں تو خود پر کیوں نہیں ہنس سکتے کونسا بل آنا ہے۔
دیکھیے اس سے فایدہ یہ ہوگا کہ اپنی ہی کمی کوتاہی خامی جو دوسروں کو لگتا ہے کہ ہو وہ نظر آیے گی اور اصل حقیقت کا ادراک بھی ہو گا کہ آپ کہاں غلط تھے اور کہاں صیح خود کو برا بھلا بھی کہنے کا دل کرے گا مگر رکیے گالی نہیں دینی خود کو بری بات ہے مگر اس کا فائیدہ ہے بہت بڑا کہ آپ لوگوں کے رویوں کو سنجیدگی سے لیتے ہوئے دل پر نہیں لیں گے اور خود فریبی کہ اس جال سے نکل آئیں گے جو برسوں سے آپ نے خود اپنے گرد خود بنا ہے۔
انسانی تخلیق بیشک رب العزت کی باکمال تخلیق ہے مگر اس کی پیچیدگیوں میں اضافی کرنے والے ہم خود ہوتے ہیں۔ہم لوگوں کو رویوں کو ذہنوں پر سوار کر لیتے ہیں کبھی کسی کو خوش کرنے میں اللہ ذوالجلال والاکرام کی اطاعت کرنے کو بھول جاتے ہیں اور گناہگاروں میں شامل ہو جاتے ہیں تو کبھی اپنی اندرونی مخالفت کو سرانجام دینے کے لیے اپنے بدترین دشمن شیطان کو خوش کر بیٹھتے ہیں کبھی متوازن اور متوازی توازن رکھنا ہم نے سیکھا نہیں یا پھر ہمیں سکھایا نہیں جاتا۔
بچپن سے ہمارے اندر لوگوں کا رویوں،اور بڑوں کا رعب ڈالا جاتا ہے جسے میں ادب نہیں کہوں گی کیونکہ اس میں اگر دینے والا عزت دے رہا ہے تو لوٹانے والا پیار نہیں دے رہا بلکہ اپنا حق سمجھ کر وصول کر ہا ہے اور بدلے میں گالیاں ڈانٹ پھٹکار طعنے تشنہ ہیں چلیں سب کا نہیں مگر اکثریت کا حال یہی ہے۔یہ چیزیں ہمارے اندر فرسٹریشن اور ڈپریشن کو پیدا کرتی ہیں جب ہم جائز بات کا جواب نہیں دے پاتے کی ناراضگی ہو جائے گی” ان” کے سامنے تو آج تک کوئی نہیں بولا۔
تو واقعی اس خود فریبی کے جال کو،جس میں ہم نے خود کو کمزور مظلوم سمجھ لیا، تو توڑنا لازم و ملزوم ہے کیونکہ یہ جال،شہ،رعب سب ہم نے اپنی کمزوری خاموشی سے دوسروں کو دیا ہے کتنے ہی گھروں میں دن کا آغاز گالیوں سے ہوتا ہے کیوں کیونکہ کبھی کسی ساس یا سسر،شوہر،بیوی بڑے بزرگ کو کسی نے تمیز سکھانے کی کوشش نہیں کی بلکہ خاموش رہے۔میں یہاں بے ادبی کی بات نہیں کر رہی مگر اپنے حق کے لیے بات کرنا ضروری ہے۔
خود پر ہنسنے کا ایک فائیدہ یہ بھی ہے کہ معاشرتی رویوں کی برداشت کے ساتھ موقع پر کی جانے باتوں کا ربط بھی سمجھ آتا ہے کون آپ کے ساتھ اور کون مخالف یہ بھی سمجھ آتا ہے برداشت یاداشت کے ساتھ آپ کا سکون اور اطمینان بھی لے جاتی ہے اور تہی دامن خود ترسی کا شکار ہو جاتے ہیں اس لیے کہ وہ رشتے کن پر آپ کو بہت مان تھا آپ کو چھوڑ گئے ہوتے ہیں یا پھر آپ سے بہت دور۔
سادہ اور آسان سا حل ہے خودشناسی کی عادت ڈالئیے مراد اپنے اندر کی صلاحیت کو پہچانیے بجائے اسکے کہ آپ لوگوں کے ہاتھوں کٹھ پتلی بنے رہیں سمجھیے کہ کیا چیز آپ کو سکون دیتی ہے
اور وہی آپ اصل میں ہیں کوئی بھی کام۔اللہ رب العزت نے آپ کو اشرف المخلوقات بنا کر بھیجا ہے تو ایسا تو ہو نہیں سکتا کہ آپ میں کوئی خوبی نہ ہو اس سلسلے میں آپ کی مدد آپ سے بڑھ کر کوئی اور نہیں کر سکتا،برداشت کریں مگر خود کو مصروف کریں جیسے باغبانی خواہ ایک پودے سے آغاز کیجیے سلائی کڑھائی،لکھنا،پڑھنا مصوری ڈیزائننگ،کچھ بھی جو آپ کو اچھا لگتا ہے یہ آپ کو اس خود فریبی کے جال سے نکال لے گا جس میں آپ کو اپنا آپ بہت مظلوم لگتا ہے جب آپ خود توجہ دیں گے۔
دوسرے نمبر پر آگئے وہ لوگ جو اس خود فریبی میں مبتلا ہیں کہ ہمارے بغیر کچھ نہیں ہو سکتا تو جناب آپ ذرا کچھ دن کے لیے باہر تو جائیے گھر والے آپ کے بنا کرنا بہترین بلے بلے کریں گے آپ وہ سوچ بھی نہیں سکتے۔اس کاینات کو صرف اللہ تعالیٰ کی ذات کنٹرول کر رہی ہے اس نے ہر انسان کو آزاد پیدا کیا ہے پھر آپ کیوں دوسروں کی سانسوں پر قابض ہونے کے درپے ہیں،ارء کچھ تو شرم کیجیے جن لوگوں کا سانس آپ خشک کیے رکھتے ان سمیت باہر والے آپ کو دن میں ہزار ہا گالیاں اور بد دعائیں دیتے ہیں،اپ یقین کریں یا نہ کریں مگر آپ بھی ذہنی اذیت کے گرداب میں پھنسے رہتے ہیں اور ان چکروں میں کہ لوگوں کو کیسے قابو کریں صاحب یہ دماغ اللہ نے اپنی اطاعت میں راستے ڈھونڈنے کے لیے دیا ہے۔
آرام کیجیے سکون دیجیے اور لیجیے،کسی سے کام۔کروا کر کسی کی تعریف کرنے سے آپ کا یقین کیجیے کچھ نہیں جائے گا الٹا دوسرے کی نظر میں آپ کی عزت بڑھے گی۔رکیے آپ عزت کا مطلب جانتے ہیں کہیں آپ رعب و دبدبے کو تو عزت نہیں سمجھتے ارے صاحب پھر تو آپ بالکل غلط ہیں کیونکہ عزت وہ جذبہ یا محبت کا اشارہ ہے جو آپ کو کوئی آپ کے بڑے پن کی وجہ سے دیتا ہے مگر ٹھہریے آپ کو بڑے پن کا پتہ ہے،
ارے نہیں اب یہ تو مت کہیے۔۔۔۔۔بڑا پن انسان کے ظرف کے بڑے ہونے کا نام مطلب آپ اپنے دل کے کٹورے کو دینے کے لیے بڑا رکھیں خواہ وہ الفاظ ہوں،محبت،تعریف، مدد، خلوص یا عزت ہو یہاں برے القاب اور الفاظ نہیں آتے صاحب۔۔۔۔۔
ہوتا کچھ نہیں ہے اس قدرت کائینات کا نظام بہت عجیب ہے کہتے ہیں کہ
”بیس سال بعد تو کوڑے پر بھی بہار آتی ہے”
بہت گہری بات ہے کیسے،کیوں ایک وقت آتا ہے جب ہمارا زوال شروع ہو جاتا ہے یعنی بڑھاپا ایسے وقت میں ہم ان لوگوں کی طرف دیکھتے ہیں جن کے ساتھ ہم نے کبھی اچھا سلوک نہیں کیا اور وہ لوگ بھی دل میں آپ کو کبھی بھی معاف نہیں کر پاتے ظرف اور اخلاق والے ہونگے تو اچھا سلوک کرینگے ورنہ ایدھی ہوم بھرے پڑے ہیں
”
بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کے”
اس لیے نکلیے اس خود فریبی سے یہ آپ کو ڈپریشن میں کے جائے گی کیونکہ فرعون کی بھی فرعونیت زیادہ یا ساری زندگی نہیں چلی تھی، تو ہماری یا آپکی کتنے دن کی ہوگی۔سب سے آسان حل آسانیاں بانٹنے والے بنیے اللہ تعالیٰ خود آسانیاں عطا فرمائے گا،قران الحکیم سے جڑیے یہ آپ کو زندگی کا درست ضابطہ اخلاق سمجھائے گی جو آخرت اور دنیا میں کام آنے والا ہے۔
تو خود پر ہنسیے اور خود فریبی سے نکلیے۔