میرا ایک پُرانا کالم
قارئین یہ کالم پڑھ کر محسوس کریں گے کہ ہم آج بھی وہیں کھڑے ہیں جہاں5 جنوری 1993ء کو کھڑے تھے یہ ہماری بد نصیبی نہیں تو اور کیا ہے جمہوریت کی بقا ء کیلئے اعتدال پسندی اور افہام و تفہیم لازم ہیں صدر مملکت جناب غلام اسحاق خان نے پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کے مترکہ اجلاس میں اپنے خطاب میں بڑی مدلل بصیرت افروز اور فکر انگیز باتیں کیں انہوں نے ملک عزیز کی اقتصادی ، معای ، سماجی ، سیاسی اور خارجی صورت حال پر حقیقت پسندانا تبصرہ کرتے ہوئے آئی جے آئی کی حکومت کو درپیش مختلف نوع کے مسائل اور مشکلات کے تناظر میں مجموعی کارکردگی کا جائزہ پیش کیا
انہوں نے جمہوری اداروں اور دیگر شعبوں کی کار کردگی کو سراہتے ہوئے اسے مزید بہتر بنانے کے عمل کے لئے ممکنہ سعی و کوششیں جارہ و ساری رکھنے کی تلقین کی انہوں نے اپوزیشن اور حزب اقتدار کے درمیان پائے جانے والے سیاسی و غیر سیاسی متنازعہ امور و معاملات کو سلجھانے کے لئے اعتدال پسندی ، روا داری اور افہام و تفہیم کی راہ اپنانے کا مشورہ دیا انہوں نے سیاسی تنازعات و مسائل کے تدراک کے لئے پارلیمنٹ فورم کو ایک صحیح اور ضروری ادارہ قرار دیا صدرپاکستان غلام اسحاق خان نہ صرف ایک تجربہ کار بیرو کریٹ ہیں بلکہ سیاسی بصیرت کی حامل انتہائی اہم شخصیت بھی ہیں
انہوں نے یہ درست کہا ہے کہ پاکستان میں جمہوریت کے لئے جدو جہد کی تاریخ تو بہت طویل رہی ہے مگر جمہوریت خود ابھی نو خیز ہے قوم نے ہمیشہ جمہویت کو ہی اپنی اصل منزل سمجھا ہے لیکن منزل پر پہنچنے کے باوجود بھی گاہے بگاہے اس کے قدموں میں لرزش دل میں بد اعتمادی اور ذہن میں وسوسے جنم لیتے رہے ہیں اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ جمہوریت ہمارے لیے محض ایک نظام حکومت ہے ۔ طرز حیات نہیں ابھی ہمارے ہاں وہ کلچر پیدا نہیں ہوا جو روا داری برداشت فراغ دلی اور باہمی احترام سے عبارت ہو جس میں ہر کوئی اپنے آپ کو آئین اور قانون کے مطابق فرائض کی ادائیگی کا پابند سمجھے بلکہ اپنے اعمال کی جواب دہی اور احتساب کے لئے ہمہ وقت اور با خوشی آمادہ ہو جمہویت اسی کا نام ہے
اور یہی ہماری قدروں کا تقاضہ ہے صدر مملکت جناب غلام اسحاق خان نے یہ حقیقت تسلیم کی ہے کہ جمہوریت کے پودے کو تناور درخت بنانے کے لئے صحیح اور دیانتدارانہ کوششیں سیاسی مصلحتوں کی بھینٹ چڑھ جانے سے عوام کی توقعات ابھی تشنہ تکمیل ہیں اور یہی صورتحال ذاتی عناد اور جماتی مفادات کو قومی مفاد پر ترجیح دینے اور اکثر بحث و تمحیص ، گفت و شنید اور افہام و تفہیم کے سنہری اصولوں کو بالا ئے طاق رکھنے اور محاذ آرائی کو دعوت دینے کے موجب پیدا ہوئی ہے یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ ہمارے ہاں جمہوری نظام کو ایک سوچی سمجھی سکیم کے تحت کمزور اور لاغر رکھا گیا ہے
تاکہ وطن عزیز کی خوشحالی و تعمیر و ترقی کے اہداف پایہ تکمیل کو نہ پہنچ سکیں اور عوام کو یر غمال بناکر رکھنے کی جاگیر دارنہ سوچ برقرار رکھی جاسکے قائد اعظم محمد علی جناح ؒ کے انتقال پُر ملال کے بعد جب بھی جمہوری عمل کے تسلسل کو جاری رکھنے کی کوششیں کی گئیں مفاد پرستوں اور خود غرضوں نے اسے سبو تاژ کرنے کا کوئی نہ کوئی بہانہ تراش لیا اور ایسے حالات پیدا کر دئیے جس کو جواز بنا کر مار شل لاء کی چھتری کو حالات کی خوشگواری اور بحالی امن کے لئے آخری امید تصور کیا گیا خدا خدا کر کے اگر جمہوری عمل کے بحال ہونے کی کوئی تھوری بہت توقع پیدا ہوئی
بھی تو اسے بھی مفاد پرستوں کی مفاد پرستی کو قائم رکھنے کے لئے آمرانہ تصورات و اختیا رات کو فروغ دیا گیا تا کہ عوام جمہوریت سے اس قدر نالاں ہو جائیں کہ وہ اس کُجا نام لینا بھیک پسند نہ کریں اس وقت بھی یہی عمل دہرایا جارہا ہے اور جمہوریت کو اس قد ر بد نام اوار بد حال کر نے کی کششیں کی جارہی ہیں کہ اب عوام یہ سوچنے پر مجبورہونے لگے ہیں کہ بعض آئے ایسی جمہوریت سے جوامن و سکون کی فا ختہ کے پَر نوچنے کے دَر پہ ہوں ۔ جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء کے خاتمے کے بعد آنے والے جمہوری دور کوچا جائیکہ صحت مند اور طاقتور بنانے کی سعی کی جاتی سیاسی لیڈر اتحاد ، یگانگت ، افہام تفہیم ، روا داری اور ایک دوسرے کا احترام بجا لاتے ہوئے جمہوری نظام کی کامیابی کے لئے ہماگیر پالیسی مرتب کرتے
بد قسمتی اور ستم ظرفی یہ ہوئی کہ اس کو گروہی اور مذہبی رنگ دے کر اس کی اصل شکل بگاڑ کر رکھ دی گئی اب صورتحال اس قدر گھمبیر اور مبہم ہے کہ جمہوری نظام کی ترقی و تعمیر کے دعوے کرنے والے سیاسی زعما بھی اس اصول پر گامزن ہیں کہ اگر اقتدار ان کے ہاتھ نہیں لگ سکا تو دوسرے کے ہاتھ میں بھی نہیں پررہنا چائیے مارشل لاء کو بُر ابھلا کہنے والے اور اس کے خلاف منظم و موثر مزاحمت کر نے والی تحریکیں بھی اس امر پر متفق نظر آتی ہیں کہ اقتدار اگر ان کے ہاتھ آجائے تو ٹھیک ہے ورنہ مارشل لاء کا نفاذ بہتر ہے ان حالات کو دیکھ کر صدر مملکت غلام اسحاق خان نے حزب اقتدار اور حزب اختلاف کو سیاسی تنازعات و مفا دات کو ایوان کے اندر حل کرنے کا مشورہ دیا وہ جانتے ہیںکہ جمہوریت ہی ملک و قوم کی نشو نما اور ترقی و خوشحالی کے لئے مجرب نسخہ اور بہتر علاج ہے مارشل لاء کے مضر اثرات سے پہلے ہی ملک عزیز کو ناقابلِ تلافی تقصان پہنچ چکا ہے
اگر مارشل لاء ہی تمام بُرائیوں اور مشکلات کا اصل حل ہوتا تو 17اگست 1988کے سانحے کے بعد غلام اسحاق خان کی آشیر باد سے جنرل اسلم بیگ مارشل لاء کا نفاذ کر سکتے تھے اس وقت بھی اپو زیشن ایسے حالات پیدا کررہی ہے جس سے مارشل لاء کی راہ ہموار ہوسکتی ہے لیکن صدر مملکت غلام اسحاق خان ملک و قوم کے مفاد کے پیشِ نظر ایسا کوئی قدم نہیں اُٹھانا چاہتے جس سے کوئی نیا بحران پیدا ہو بلکہ وہ اس کوشش میں ہیں کہ پیدا شدہ بحرانوں کے خاتمے کی کوئی ٹھوس تدبیر اور حکمت عملی وضع کی جائے اس ضمن میں صرف حزب اقتدار کو ہی نہیں دبایا جاسکتا بلکہ اپوزیشن کو بھی اعتدال پسندی اور روا داری کے جذبات کے تحت افہام و تفہیم کے لئے آگے بڑھنا چاہئیے صدر غلام اسحاق خان کی اس بات سے دونوں فریقوں کو اتفاق کرتے ہوئے کہ سیاسی متازعہ معاملات کے سلجھائو کے لئے پارلیمنٹ فورم ہی صحیح اور اصل ادارہ ہے
اور اس ادارے کی طرف ہی قدم بڑھانا چاہئیے۔ انا کا پسئلہ بنا کر فریقین ملک و قوم کے جذبات و مفادات سے نا کھیلیں اس سے ملک دشمن عناصر کی سر گرمیوں کو نہ صرف تقویت پہنچے گی بلکہ سیاسی افراتفری سے اقتصادیات و معاشیات بھی متاثر ہوں گی چند ہفتوں کی اپوزیشن کی طرف سے سیاسی ، احتجاجی تحریکوں اور لانگ مارچ سے پیدا ہونے والی صورتحال کا بغور جائزہ لینے کے بعد جو بات کُھل کر سامنے آئی ہے وہ یہ ہے کہ بعض ملکوں کی طرف سے وطن عزیز میں سرمایہ کاری کے خواہشمنداداروں اور تنظیموں کے ارادے متز لزل ہوئے ہیں اور چند ایک نے تو کُھل کر کہہ دیا ہے کہ سیاسی کشیدگی اور کشکمش ان کے کاروباری معاملات پر ضربِ کاری سے کم نہیں ۔ یہ حقیقت اپنی جگہ درست ہے
کہ جمہوریت میں اختلافِ رائے اور ہلہ گُلہ ایک بنیادی عمل ہے لیکن یہ بھی نہیں کہ ملکی اقتصادیات اور معاشیات کو تباہ و برباد کرنے کی ہمہ گیر کوششیں کی جائیں ایسی صورتحال جو ہمارے ہاں ایک عرصہ سے موجود ہے دنیا کے کسی ملک میں نہیں ۔ ہمارے ہاں تھوڑے سے حالات کی خرابی کے تدراک کے لئے مارشل لاء کا دروازہ کھٹکھٹانے کی کوشش میں لگ جاتے ہیں اور ماضی میں ہونے والے مارشل لاء کے مضر اثرات کو قطعی بھول جاتے ہیں ہمیں یہ بھی یاد نہیں رہتا کہ مارشل لاء کے آجانے سے کیا ہماری پریشانیوں اور مشکلات کا خاتمہ یقینی ہو سکے گا یا نہیں ۔
میری نظر میں یہ سب مفاد پرستوں اور خود غرضوں کی خود غرضی اور مفاد پرستی کا گھن چکر ہے جمہوری عمل سے عوام کو نالاں کرنے پر تُلے بیٹھے ہیں اس طبقے نے قائد اعظم محمد علی جناحؒ کی قیام پاکستان کی کوششوں میں بھی رکاوٹیں اور مشکلیں پیدا کرنے کی کوششیں کی تھیں اور یہی طبقہ اب بھی اپنے من پسند اقتدار اعلیٰ کے لئے بر سرِ پیکار ہے ۔ عوام تو سمجھ چکے ہیں لیکن بعض نادان سیاسی لیڈر ان کے مکروہ شکنجے میں سے بچ نکلنے میں ابھی تک کامیاب نہیں ہو سکے یہ ان کی نہیں ملک و قوم کی بد نصیبی ہے ۔