برصغیر ہند میں مسلم معاشرہ کی مضبوطی کا راز –
آج کی بات۔شاہ باباحبیب عارف کیساتھ
تحفہ پاکستان٬ صفحہ۳۵۔۳۹)
اس سلسلہ میں ہم یہاں مزید وضاحت کے لیے عالم اسلام کے مفکر مولانا سید ابو الحسن علی ندوی صاحب کا حوالہ دینا ضروری سمجھتے ہیں۔ مولانا فرماتے ہیں: آپ تاریخ فیروز شاہی کا مطالعہ کریں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ ایسا بارہا ہوا ہے کہ غیرمسلموں نے سازش یا کوشش کی ہے کہ وہ حاوی ہوجائیں٬ لیکن ایسا نہیں ہونے دیا گیا٬ یہ کس بات کی دلیل تھی؟ اسی کا نتیجہ تھا کہ خاندانوں میں زوال آتا تھا٬ لیکن مسلم معاشرہ میں عمومی طور پر زوال نہیں تھا٬ اس میں وہی دینی جذبہ تھا٬ اس میں وہی دینی حمیت تھی٬ اس میں اسلام سے وہی محبت تھی٬ اس میں اسلام کے افہام تفہیم کے وہ مراکز قائم تھے٬ جن کو مدارس کہا جاتا ہے٬ اس میں اسلام کی روحانیت کے تسلسل کے لئے وہ مرکز قائم تھے٬ جن کو خانقاہوں کے نام سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
میں اس کی ایک مثال دیتا ہوں٬ محبوب الہٰی سلطان المشائخ حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء کا تعلق سلسلہ چشتیہ سے ہے٬ سلسلہ چشتیہ والوں نے اصولاً یہ طے کر لیا تھا کہ وہ اسلامی سلطنت کے لئے دعاگوئی کا فرض انجام دیں گے٬ اور رہنمائی بھی کریں گے٬ لیکن اس سے دور رہیں گے٬ کوئی عہدہ قبول نہیں کریں گے٬ اس اصول پر حضرت محبوب الہٰی شدت سے کار بند رہے٬ انہوں نے سلطنت کو جاڑوں کی اس آگ کی طرح سمجھا کہ جس سے ذرا دور رہ کرتاپا جائے اور گرمی حاصل کی جائے٬ لیکن اس کے اندر داخل نہ ہوا جائے٬ وہ سلطنتوں سے اتنے دور رہتے تھے کہ ان کے حالات سے تو واقف رہے
٬ لیکن اس میں ملوث نہ ہوئے٬ ان کا دہلی کی سلطنت سے ایسا تعلق تھا کہ جب کوئی سخت وقت آتا تھا تو دہلی کے فرمانروا ان کی طرف رجوع کرتے تھے۔ ایک مرتبہ علاؤالدین خلجی* نے جب جنوب میں ملک عنبر کی ماتحتی میں مہم بھیجی اور چوکیاں اٹھ گئیں اور بہت دنوں تک خبر نہیں آئی تو اندیشہ ہوا کہ اسلامی فوج ضائع ہوگئی٬ بادشاہ نے پریشان ہو کر اپنے ایک معتمد کو حضرت خواجہ نظام الدین اولیاءکے پاس بھیجا اور کہا کہ حضرت کو مسلمانوں کی فکر اور مسلمانوں کی جان کی قیمت کا احساس ہم سے زیادہ ہے٬ اس وقت ہمیں کوئی پتہ نہیں چل رہا ہے کہ ہماری فوج جو جنوب کی طرف گئی تھی٬ اس کا کیا حشر ہوا؟ ہم سب پریشان ہیں٬ حضرت نے جواب دیا کہ “ان شاء اللہ خیریت ہے٬ بادشاہ کو فتح کی مبارکباد، اور کہنا کہ اور فتوحات بھی حاصل ہوں گی” ایک طرف تو بادشاہ کو اطمینان دلایا٬ دوسری طرف اپنی خانقاہ کے سارے ذاکرین کو ذکر چھڑا کر دعا کے لئے بٹھا دیا کہ تم دعا کرو۔
میں ایک دوسری مثال دیتا ہوں٬ “حضرت “جب رات کو آرام فرمانے کے لئے لیٹتے تھے تو خاص طور سے “امیر خسرو” کو ٬ جو بڑے مقرب تھے٬ طلب فرماتے تھے اور ان سے کہتے تھے کہ ” کہو دہلی میں کیا ہورہا ہے۔۔؟ یہ گویا اخبار تھا اور رات کو حضرت یہ اخبار سنتے تھے٬ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ہمارے مشائخ نے دنیا سے بالکل آنکھیں بند کر رکھیں تھیں اور وہ سلطنت وسیاست کی ہوا بھی اپنی خانقاہوں کو نہیں لگنے دیتے تھے٬ غلط ہے۔ “امیر خسرو”، “حضرت” کے بڑے معتمد ٬ اس کے ساتھ سلطنت دہلوی کے ایک بڑے رکن رکیں تھے اور شاعر ہونے کی وجہ سے وہ بہت سی ایسی چیزوں سے واقف ہوجاتے تھے٬ جن سے انتظامی لوگ جن کا تعلق صرف انتظامی امور سے ہو٬ واقف نہیں ہو سکتے تھے۔۔