جنسی تشدت سے محفوظ رکھنے کی کوشش ! 114

جنسی تشدت سے محفوظ رکھنے کی کوشش !

جنسی تشدت سے محفوظ رکھنے کی کوشش !

تحریر:شاہد ندیم احمد
ملک بھر میںبچوں اور خواتین کے خلاف ہولناک جرائم کی کثرت ہوگئی ہے اور حکومت و معاشرہ دونوں جرائم پر قابو پانے میں ناکام ہوچکے ہیں۔ ملک میں ایسے ہولناک واقعات پیش آرہے ہیں کہ جن کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا،اس صورت حال کے پیش نظروزیراعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ جنسی زیادتی کے واقعات کو روکنے کے لیے ابتدائی طور پر کیسٹریشن کے قانون کی طرف جانا ہوگا،وفاقی کابینہ نے تعزیرات پاکستان میں ترمیم کے لیے بلاتاخیر آرڈی نینس لانے کا فیصلہ کیا ہے، اس آرڈی نینس کا مقصد معاشرے کو محفوظ ماحول دینا اور جنسی زیادتی کے مجرموں کو عبرت ناک سزا دینا ہے،

تاہم صرف سخت سزائوں کی قانون سازی سے جرائم کا خاتمہ نہیں ہوسکے گا ،جب تک کہ پولیس اور تفتیشی اداروں کو دیانت دار نہیں بنایا جائے گا۔ پاکستان کا ریاستی نظام طاقتوروں اور دولت مندوں کو سزا دینے میں ناکام رہا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان مسلسل ریاست مدینہ کی پیروی کی تو بات کرتے ہیں،مگر انہیں حدود اللہ کے نفاذ اور شرعی سزائوں کی بھی بات کرنی چاہیے ،کیو نکہ سرعام شرعی سزائوں کے نفاذ کے بغیر مجرموں میں خوف پیدا نہیں کیا جاسکتاہے۔
اس میں شک نہیں کہ خواتین اور بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات دن بدن بڑھتے جارہے ہیں ،اس کے سد باب کیلئے جہاں قانون سازی کی جاری ہے ،وہیںقانون کی عملداری کو یقینی بنانے کے ساتھ جدید خطوط پر تفتیشی اداروںکی کار کردگی کو بھی بہتر بنانے کی اشد ضرورت ہے،اس کے ساتھ معاشرے کے تمام طبقات کو بھی ا پنا موثر کردار ادا کرنا ہو گا، معاشرے میںآنے والی نسلوں کو محفوظ رکھنے کیلئے ایک مربوط نظام ترتیب دیا جانا چاہئے ،

جس میں ہر طبقہ اپنا اپنا کردار ادا کرے۔ علماکرام دین اسلام میں جنسی تشدت کے گناہ پردرس دیں ، این جی اوز عوام میںآگاہی مہم چلائیں،میڈیا تشہری مہم کے ذریعے کلیدی کردار ادا کرسکتا ہے،جبکہ والدین اور اساتذہ کا کردار بنیادی ہے۔والدین اور اساتذہ جب تک بچوں کو جدیددور کے بدلتے ر جحانات کے ساتھ تعلیم و تربیت پر خصوصی توجہ دینے کے ساتھ خاص خیال نہیں رکھیں گے ،حکومت محض قانو سازی کے ذریعے کبھی مکمل تتحفظ فراہم نہیں کرسکے گی۔
اسلامی جمہوریہ پاکستان میں قانون کے تحت جنسی زیادتی ایک قابلِ سزا جرم ہے، قانون کے تحت ایسے مجرموں کو سزائے موت اور 10 سے 25 سال تک قید کی سزا دی جاسکتی ہے،دوسری جانب اجتماعی زیادتی کے کیسز میں سزا صرف سزائے موت یا عمر قید ہوسکتی ہے، جبکہ سزا دینے سے قبل ڈی این اے ٹیسٹ اور دیگر طبی ثبوت سامنے رکھے جاتے ہیں ،تاکہ جرم ثابت ہوجائے۔ حکومت نے ملک بھر میں خصوصی عدالتیں بھی قائم کر رکھی ہیںکہ جن کا مقصد خواتین کے خلاف ظلم و تشدد اور جنسی زیادتی جیسے واقعات پر فوری انصاف کی فراہمی ہے۔

تقریباً 14 برس قبل 15 نومبر 2006ء کو پاکستان کی قومی اسمبلی نے ویمن پروٹیکشن بل کی منظوری دی تھی ،اس کے تحت حدود آرڈیننس میں ترامیم کی گئیں،نئے بل کے تحت جنسی زیادتی کے مجرموں کیلئے سزائے موت کو قانون میں شامل کیا گیا،جنسی زیادتی ثابت کرنے کیلئے 4 گواہوں کی شرط بھی ختم کردی گئی ہے،اس کے باوجودجنسی زیادتی کے واقعات نہ صرف بڑھتے جارہے ہیں ،بلکہ اس میں مزید اضافہ ہونے کا بھی خدشہ ظاہر کیا جارہاہے۔
اس میں کوئی دورائے نہیں کہ ملک میں جنسی تشدت کے بڑھتے واقعات کے اسباب میں معاشرتی وسماجی کوتاہیوں کے ساتھ فوری انصاف کی عدم فراہمی مین وجہ ہے،ملک میں جب تک مظلوم کو فوری انصاف فرہم کرنے کے ساتھ مجرم کو نشان عبرت نہیں بنایا جائے گا ،عوام غیر محفوظ ہی رہیں گے۔ قصور کی معصوم بیٹی زینب سے لے کر چار سدہ کی ڈھائی سالہ بچی سے زیادتی تک اور تادم تحریر بچیوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات جس سفاکیت سے سامنے آرہے ہیں، وہ سماجی اور قانونی سطح پر قانون کی بالادستی کو ناکام ثابت کرتے ہیں۔ اگر چہ پنچایتیں اور جرگے کچھ امور میں لوگوں کو فوری انصاف
فراہم کرتے ہیں، مگر جنسی زیادتی کے معاملات میں ان کے فیصلے مذید ظلم کی حوصلہ افزائی کا باعث بنے ہیں۔حکومت کی جانب سے نئی قانون سازی خواتین اور بچوں کے تحفظ کے سلسلے میں تشویش کا پتہ دیتی ہے، تاہم کچھ قوانین اور سماجی معاملات پر ازسرنو غور کرلینا چاہیے کہ جس شخص کو نامردبنایا جائے گا، اسے سماج میں آزاد چھوڑ دیا گیا تو زیادہ خطرناک ہو سکتا ہے،اور اگراسے نامرد بنانے کے ساتھ قید میں رکھا گیا تو ایک جرم میں دو سزائوں کا معاملہ ہو جائے گا،اس کے علاوہ جنسی زیادتی کے جتنے مقدمات عدالتوں میں پہنچ رہے ہیں ،

اس میں بڑی تعداد ناقص تفتیش کے باعث مظلوم کو انصاف فراہم کرنے سے قاصر رہی ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ جنسی زیادتی کے واقعات کی تفتیش کے لیے ایس او پیز مقرر کئے جائیں کہ جن کی خلاف ورزی پر تفتیشی عملے کے خلاف بھی کارروائی ہو سکے۔ حکومت کی جانب سے جنسی جرائم کے خاتمے کیلئے قانوسازی ہی کافی نہیں، سزائوں پر فوری عملدرآمد بھی بہت ضروری ہے، کیونکہ جب تک جنسی جرائم میں ملوث مجرموں کو سرعام اور عبرتناک سزائیں نہیں دی جائینگی، معاشرہ ایسے ناسوروں سے پاک ہوگااور نہ ہی عدم تحفظ کی فضاء میںبچوں کو جنسی تشدت سے محفوظ رکھاجاسکے گا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں