حضرت زینب بنت خزیمہؓ۔۔۔۔
تحریر:فرزانہ خورشید
آپ کا یہ اعزاز و شرف کسی تعارف کا محتاج نہیں کہ آپ رضی اللہ تعالی عنہا سرورِ کونین، رحمت اللعالمین، سردار الانبیاء اور رسول و محبوبِ خدا حضرت محمدﷺ کی “ازواجِ مطہرات “میں شامل تھیں۔ اور وہ خوش قسمت خاتون تھیں جنہوں نے آپؐ کی حیات طیبہ میں ہی اس دارِ فانی سے ربیع الثانی ۴ ہجری میں رحلت فرمائی اگرچہ ام المومنین حضرت خدیجؓہ بھی آپ کی زندگی میں ہی رخصت ہوئی مگر، اس وقت نماز جنازہ کا حکم نہیں آیا تھا آپؐ نے خود ان کا جنازہ پڑھایا اور مغفرت کی دعامانگی مدینے ،جنت البقیع میں تمام ازواجِ مطہرات میں، جو سب سے پہلے مدفون ہوئیں ،وہ آپؐ کی پانچویں زوجہ ام المومنین حضرت زینبؓ بنتِ خزیمہؓ ہیں۔
ولادت نام و نسب:
آپ رضی اللہ تعالی عنہ بعثتِ نبویؐ سے تیرہ یا پندرہ سال قبل شہر مکہ میں پیدا ہوئی ،آپؓ کے والد کا نام خزیمہ اور والدہ کا نام ہند بنت عوف بن زہیر بن الحارث بن حماطہ تھا۔ سلسلہ نسب اصحاب سیر نے اس طرح بیان کیا ہے: زینب بنت خزیمہ بن عبداللہ بن عمر بن عبد مناف بن ہلال بن عمار بن عامر صعفعہ بن معاویہ بن بکر بن ہوازن بن منصور بن عکرصہ بن خصفہ بن حنیس بن عیلال الہلا لیہ( ازواجِ مطہرات و صحابیات کا انسائیکلوپیڈیا: ۱۷۵)
عالمِ سخاوت و فیاضی:
آپؓ فطرتاً نیک ،رحم دل، شفیق، مہربان اور صالح طبع تھی۔ حد سے زیادہ مال و دولت تقسیم کرتی، ضرورت مندوں کی امداد کے لیے ہر وقت تیار رہتی، بے دھڑک خرچ کیا کرتی تھی آپ کی سخاوت، دریا دلی اور فیاضی کا عالم یہ تھا کہ ایک دفعہ کسی سائل کے سوال پر گھر میں جو مال، ساز و سامان رکھا تھا سب کچھ دے دیا اور خود بھوکی سو گئی، آپؓ کی اس بے پایہ سخاوت ،کشادہ ظرفی کا، آپؐ نے تمام ازواجِ مطہرات سے بھی ذکر کیا۔
لقب :ام المساکین:
آپؓ کی اعلیٰ فیض رسانی کی وجہ سے آپؓ کو ام المساکین کا لقب ملا بقول ابن ابی خیثمہ” حضرت زینب رضی اللہ تعالی عنہا زمانہ جاہلیت میں بھی اسی لقب سے مشہور تھی” پھر تاریخ میں بھی آپ کی اس خوبی کی بنا پر یہ لقب آپ کے نام کا حصہ بن گیا. علامہ ابن کثیر لکھتے ہیں مساکین پر کثرت، صدقات و خیرات، نیکی اور احسان کرنے کی وجہ سے آپ کو” ام المساکین “کہا جاتا ہے اسلام سے قبل بھی اسی طرح مساکین و غرباء اور حاجت مندوں پرآپؓ نہایت مہربان تھی۔
نکاح:
آپ کی شادی کے متعلق تین رائے ہیں۔
۱. آپ کا پہلا نکاح طفیل بن حارث بن عبدالمطلب کے ساتھ ہوا لیکن تھوڑے عرصے بعد ہی طفیل بن حارث نےانہیں طلاق دے دی۔
۲. اس کے بعد طفیل کے بھائی عبیدہ بن حارثؓ نے آپ رضی اللہ عنہا سے شادی کی حضرت عبیدہ بن حارثؓ ایک بلند حوصلہ اور باہمت شخصیت کے حامل تھے ،آپؓ غزوہ بدر میں شہید ہوۓ۔
۳. ایک رائے یہ ہے کہ آپ کی شادی
سیدنا عبداللہ بن جحشؓ کے ساتھ ہوئی اور جب وہ غزوہ احد میں شہید ہو گئے تو آپؓ نبی کریم ﷺکے ساتھ رشتہ ازدواج میں منسلک ہوگئیں۔
مکے سے مدینے کی طرف ہجرت:
یہ ٹھیک طرح معلوم نہیں کہ آپ کب مشرف بہ اسلام ہوئیں، آپ چونکہ نرم مزاج ،نیک فطرت اور صالح تھیں۔ لہذا قرین قیاس ہے کہ ابتدائی ایام میں ہی آپؓ نعمتِ اسلام سے مالا مال ہو گئیں، جب ہجرتِ مدینہ کا حکم ہوا تو آپؓ اپنے شوہر حضرت عبیدہؓ جنہیں نبی کریمؐ سے بے پناہ لگاؤ اور عشق تھا اور لوگ آپ کو “شیخ المھاجرین” کے لقب سے پکارتے تھے کہ ہمراہ مدینے پہنچیں.
غزوہ بدر میں حضرت عبیدہؓ کی جامِ شہادت :
حضرت عبیدہؓ سرزمین بدر میں ،جو کہ ۱۸ رمضان المبارک ۲ ہجری کو حق و باطل کا پہلا معرکہ شروع ہوا تو تین
سورما ” عتبہ ،شیبہ اور ولید “اپنی شجاعت پر اتراتے ہوئے تکبر سے آگے آئے، تو حضرت علیؓ، حضرت حمزہؓ اور حضرت عبیدہؓ یہ تینوں بہادر، ان کافروں کے مقابل سامنے آئے ،حضرت علیؓ اور حضرت حمزہؓ نے اپنے اپنے حریفوں کو قتل کر دیا ،لیکن عتبہ نے حضرت عبیدہؓ کو اپنے ظالمانہ وار سے شدید زخمی کردیا. انہیں اسی حالت میں اٹھا کر نبی کریمؐ کے سامنے لایا گیا، آپؐ نے ان کا سرمبارک اپنی گود میں رکھا اور خون و دھول سے اٹا ان کا چہرہ صاف کرنے لگے، آپؓ نے تڑپتے ہوئے پوچھا “یا رسولؐ کیا میں شہید ہونگا” آپؐ نے فرمایا، کیوں نہیں آپ شہید ہیں، یہ سن کر آپ کھل اٹھے اور کہا “آج اگر میرے والد ابو طالب حیات ہوتے تو میں ان کے اس شعر کا حقیقی مستحق ہوں کہ” ہم محمؐد کی حفاظت کریں گے، حتیٰ کہ ان کی خاطر اپنی گردنیں دے دیں گے اور اپنے اہل و عیال سے بے نیاز ہو جائیں گیں” یہ کہہ کر آپ کی روح مالکِ حقیقی کی طرف پرواز کر گئی، اس وقت آپؓ کی عمر ۶۳سال تھی اور بدر کے دامن میں آپ مدفون ہوئے.
حضرت عبداللہ بن جحشؓ سے نکاح:
شوہر کی جدائی کے غم و صدمے سے نڈھال آپؓ تنہا ہو کر بکھر گئیں ، مگر صبر کا دامن نہ چھوڑا ،جیسے ہی آپ کی عدّت ختم ہوئی تو آپ کا نکاح ایک اور عاشقِ رسولﷺ جلیل القدر صحابی حضرت عبداللہ بن جحشؓ سے ہوا، آپؓ بھی قدیم الاسلام تھے اسلام کی خاطر پہلے حبشہ پھر،مدینہ کی طرف ہجرت کی ،رشتے میں آپؐ کے پھوپھی زاد بھائی اور دین اسلام کے پرجوش سپاہی اور اپنے رب کے حقیقی عاشق تھے۔
حضرت عبداللہ بن جحشؓ کی شہادت کا دل سوز واقعہ:
غزوہ احد سے ایک روز پہلے آپؓ نے اللہ عزوجل کے دربار میں اپنی عرضی پیش کی کہ” اے باری تعالیٰ کل میرے مقابل ایک ایسا آدمی لانا جو بڑا بہادر اور زبردست لڑنے والا ہو، میں اس کے ساتھ مقابلہ کرو یہاں تک کہ وہ غالب آجائے اور میں اس کے ہاتھوں تیری راہ میں قتل کر دیاجاؤں ،اور پھر وہ میرے ناک، کان کاٹ ڈالے، پھر روزِ قیامت میں تجھ سے ملوں تو مجھ سے پوچھے کہ تیرے ناک کان کہاں گئے تو میں کہوں تیری راہ میں، تیرے اور تیرے نبیؐ کی خوشی کی خاطر کٹوا دیے۔
پھر یوں ہی ہوا ،ان کی عرضی قبول ہوئی غزوہ احد میں شہید ہوئے اور کافروں نے جوش و غضب میں ان کی ناک کان کاٹ ڈالے، آپؐ نے انہیں اپنے پیارے چچا حضرت حمزہؓ کے ساتھ قبر میں دفن کیا شہادت کے وقت آپؓ کی عمر چالیس سال تھی۔
قربانیوں کے صلے میں ام المومنین بننے کا شرف:
پے در پے دو مجاہدین اسلام عاشق رسول اور محبت کرنے والے شوہر کی رفاقت و زوجیت میں رہنے اور ان کی شہادت کے بعد گہرے غم اور تنہائی سے دوچار اور ہر طرح کے سہاروں سے آپؓ محروم ہو گئیں،تو نبی کریمﷺ انہیں کس طرح ان کی دینِ اسلام کی خاطر دی گئی قربانی جہد و تکالیف کو نظر انداز کردیتےاور بے یار و مددگار چھوڑ سکتے تھے، اللہ عزوجل نے آپکو اس کا صلہ اپنے محبوب رسول اکرم ﷺ کی شریک حیات کے شرف کی صورت میں عطا کیا ،چنانچہ آپؐ نے انھیں رمضان ۳ہجری میں نکاح کا پیغام دیا،جو آپؓ نے سعادت سمجھ کر منظور کر لیا اس وقت آپ کی عمر ۳۰سال تھی یہ نکاح سیدہ حفظہؓ سے عقد کے ایک ماہ بعد ہوا تھا۔مہر ایک قول کے مطابق ساڑھے بارہ اوقیہ چاندی مقرر ہوا۔
مختصر ترین مدتِ رفاقت:
نکاح کے بعد آپ حضور ﷺ کے ساتھ بہت تھوڑے ہی عرصے زندگی گذار سکیں۔ایک روایت کے مطابق فقط دو یا تین ماہ بعد اور دوسری روایت کے مطابق نکاح کے آٹھ مہینے کے بعد ربیع الثانی ۴ہجری میں وفات پا گئی۔آپؐ نے خود جنازہ پڑھا،مغفرت اور بلند درجے کی دعا کی اور اپنے سامنے انھیں انکے بھائیوں کے ساتھ مل کر لحد میں اتارا۔ آج بھی مدینے کے قبرستان جنت البقیع میں محو استراحت ہیں