مورے بنٹر کے
تحریر از فیصل تحسین
تحریر کچھ یوں ہے کہ گزشتہ دنوں ایک دوست سے ملاقات ہوئی۔حال احوال’خیریت دریافت کرتے وقت اس کے الفاظ نے مجھے چونکادیا۔دوست چونکہ سرائیکی زبان سے وابستہ ہے تو جب میں نے اس سے خیریت دریافت کی تو اس نے کہا کہ ” ودیمورے بنٹر کے جیندے ہیں ”
مجھے ان الفاظ کی سمجھ نہیں آئی جب میں نے اس سے ان الفاظ کی وضاحت پوچھی تو کہنے لگا چونکہ ہم دیہاتی لوگ ہیں تو ہمارے ہیں لوگ زیادہ تر گا? اور بھینس وغیرہ کو پالتے ہیں جب گا? بھینس اپنے بچھڑے کو جنم دیتی ہے تو اس جنم کے وقت بعض اوقات بچھڑا مر جاتا ہے یا مرا ہوا پیدا ہوتا ہے اس کے بعد وہ گائے یا بھینس اس درد ناک غم میں دودھ دینا بند کر دیتی ہے تو ہم دیہاتی لوگ اس مردہ بچھڑے کی کھال محفوظ کر لیتے ہیں اور گوشت نکال کے ضائع کر دیتے ہیں
اور پھر اس مردہ بچھڑے کی کھال کو خشک کر لینے کے بعد اس میں بھوسہ وغیرہ بھر کر اسے سلائی کر دیتے ہیں اور اس کی ایک مورت بنا دیتے ہیں جس سے وہ بظاہر ایک بچھڑا تو بن جاتا ہے جو کہ جاندار نہیں ہوتا ہے اس کے بعد اس بچھڑے کی مورت کو اس گائے (ماں)کے سامنے کھڑا کر دیا جاتا ہےجس کو دیکھ کر اس بچھڑے کی کھال کی خوشبو سے وہ گائے دودھ دینا شروع کر دیتی ہے۔۔۔۔۔کہتا ہے یہی صورت حال آج کل ہماری ہے_
دوست نے بات مختصر کی لیکن اس بات میں وہ اپنا بہت کچھ بتا گیا کہ رہا تھا کچھ اسی طرح آج کل ہماری زندگی کا پہیہ چل رہا ہے
جیسے جیسے چیزیں سمٹتی جا رہی ہیں فاصلے کم ہوتے جا رہے ہیں اسی طرح ہماری گفتگو بھی مختصر ہوتی جا رہی ہے بعض اوقات ہم ایک ہی جملے میں اپنی پوری کہانی بیان کر رہے ہوتے ہیں۔