حکومتی جبر کا شکار ایف ایم ریڈیو
یہ ریڈیو کو ہی اعزاز حاصل ھے کہ جس نے 14 اگست 1947 کو رات 12 بجے ایک آزاد ملک پاکستان کے قیام کی خوشخبری پوری پاکستانی قوم کو سنائی۔ ریڈیو اس وقت واحد نشریاتی ادارہ تھا جس سے یہ اعلان ھوا کہ ” یہ ریڈیو پاکستان ھے آپ کو آزادی مبارک ھو “۔ کئی سالوں سے آزادی کی تحریک میں جدو جہد کرنے والے پر جوش مسلمانوں نے جب مصطفی ہمدانی کی آواز میں یہ خبر سنی تو سجدہ شکر ادا کرنے لگے کیونکہ آزادی سے بڑی نعمت کوئی ہو ہی نہیں سکتی اس کے علاوہ 6 ستمبر 1965 کی جنگ میں بھی صبح کے وقت فیلڈ مارشل جنرل محمد ایوب خان نے ریڈیو پاکستان کے ذریعے قوم کو ہندوستانی حملے سے آگاہ کیا
اور مدد مانگی۔ یہ ریڈیو ہی تھا جس پر 1965 اور 1971 کی جنگ میں قومی ترانے نشر ہوتے رہے جو ہمارے فوجی جوانوں کے جوش و جذبے میں اضافہ کر کے ان کے لہو کو گرماتے رہے۔ اس وقت وطن عزیز میں سرکاری ریڈیو کے علاوہ پرائیویٹ سیکٹر میں ایف ایم ریڈیو کا جال چھوٹے بڑے شہروں میں پھیل چکا ھے۔ فرانس ، امریکہ ، روس ، جرمنی ، اٹلی ، برطانیہ اور ان جیسے دیگر یورپی ممالک میں کوئی بھی سرکاری پیغام اب بھی ریڈیو سے نشر ہونا ضروری ہے کیونکہ یہ سستا ترین ذریعہ ابلاغ ہے۔ جس کی افادیت سے کسی صورت انکار نہیں کیا جا سکتا۔
حکومت پاکستان اس سستے ذریعہ ابلاغ کی ترقی کیلئے کام کرتی مگر افسوس کہ ایسا نہ ہو سکا۔ریڈیو پاکستان کے مختلف اسٹیشنز پر 4400 مستقل آسامیاں ہیں جن میں سے اب صرف 2400 ملازمین کام کر رہے ہیں۔ 20 اکتوبر 2020 کو 749 چھوٹے ملازمین کو فارغ کر دیا گیا جس سے کئی خاندان فاقوں کی نوبت سے دوچار ہو گئے ہیں۔ اس کے علاوہ آج کل پاکستان کی حکومت ملک میں میڈیا کے سب سے غریب بھائی ایف ایم ریڈیو چینلوں کے پیچھے ٹیکس کی لاٹھی لے کر پڑی ہوئی ہے۔پاکستان میں تقریباً 200 ایف ایم چینل ہیں۔ پرائیویٹ شعبے میں ان میں سے غالباً آدھوں کو آخری نوٹس جاری کر دیا گیا ہے کہ حکومت کے خزانے میں اپنا حصہ ڈالو ورنہ تمہارا گانا بجانا بند اور دفتروں کی میز کرسیاں بھی نیلام کر دی جائیں گی۔
ان کمزور اور معصوم ایف ایم چینلوں کے پاس حکومت وقت کے اس بے رحم فیصلے کے خلاف سوائے رونے دھونے یا منت سماجت کے اور کوئی طاقتور فورم نہیں ھے اسی وجہ سے اس فیصلے پر نظر ثانی نہیں کی جا رہی ھے۔لیکن میرا خیال ہے کہ ایف ایم چینلز نے لوگوں کو گھر بیٹھے، گاڑی چلاتے اور دکانداری کرتے مفت تفریح پہنچانے میں اور آپس میں گفتگو کرنے کا ایک زبردست ذریعہ فراہم کیا ہوا ہے۔
کراچی میں بیٹھے ہیں تو ڈائل گھمائیں اور اردو انگریزی کے ساتھ ساتھ پشتو، براہوی، گجراتی، سندھی جس زبان میں چاہیں گفتگو سنیں۔
گانے کی فرمائش کریں اور اگر زیادہ فارغ ہیں تو فون گھما کے گفتگو میں شامل ہو جائیں۔ حالات حاضرہ کا رونا روئیں، لطیفہ سنائیں یا یہ سنا دیں کہ آج گھر میں کیا پکا ہے۔
کراچی سے نکل کر پشاور تک جائیں، ہر ضلع میں اس کی مقامی بولی میں باتیں اور اشتہار سنیں، مقامی فنکاروں کے گیت سنیں۔ایف ایم سٹیشنوں نے ہر چھوٹے شہر میں ایک کمیونٹی ہال کا کام کیا ہے۔ نچلے اور متوسط طبقوں کو اپنے اظہار کا ایک پلیٹ فارم دیا ہے اور نوجوان صدا کاروں اور صحافیوں کے لیے ایک ٹریننگ گراؤنڈ بھی ہے۔
آج کل پاکستان کے پرائیویٹ ٹی وی چینلوں کے کئی مشہور اینکرز اور چیتے رپورٹروں نے اپنے کرئیر کا آغاز ایف ایم چینلوں سے ہی کیا تھا۔
ٹی وی چینل شاید سیاست بیچتے اور کرتے ہوں۔ ایف ایم چینل کا تو مطلب ہی ہے اینٹرٹینمنٹ اور مقامی ایف ایم اینٹرٹینمنٹ چونکہ مقامی ہے اس لیے عوام اور حکومت دونوں کے مزاج کو سمجھتے ہیں۔نماز کے وقت اذان لگا دیتے ہیں، جمعہ کو قوالیاں، ربیع الاول میں نعتوں سے سما باندھ دیتے ہیں،
محرم میں مرثیے چلوا دیتے ہیں۔صبح کے وقت ہلکی پھلکی گپ، خبریں اور رات دیر گئے ذرا رومانی ہو جاتے ہیں اور غزلیں وغیرہ لگا کر بے خواب سامعین کے رومانی قصے سنتے ہیں۔تابع دار اتنے کہ اگر حکومت کہے کہ انڈین گانے بند کرو تو فوراً بند، حکومت کہے کہ ڈیم کے اشتہار چلاؤ تو ثاقب نثار کے جانے کے کئی ماہ بعد بھی اشتہار چلاتے رہتے ہیں۔اگر آرڈر آئے کہ کسی غیر ملکی اخباری ادارے کی خبر نہیں چلانی تو کہتے ہیں کہ بالکل نہیں چلانی ہمیشہ جی حضوری سے ہی کام لیتے ہیں۔ایف ایم سٹیشنوں سے زیادہ موثر اور ہومیوپیتھک میڈیا کسی حکومت کو نہیں مل سکتا لیکن خدا جانے حکومت کے کان کس نے بھرے ہیں کہ جن شرطوں پر 10 سال پہلے لائسنس ملے تھے اب ان سے پچیس گنا ذیادہ پیسہ مانگ رہی ہے
اور یہ بھی کہہ رہی ہے کہ ابھی دو ورنہ انہیں بند کرو اور گھروں میں بیٹھو۔ لمحہ فکریہ ہے کہ وہ کورونا کی وجہ سے برباد معیشت میں کھائیں گے کیا، کمائیں گے کیا اور حکومت کے ہرجانے کیسے بھریں گے۔اگرچہ ان ایف ایم سٹیشنز کو ملنے والے زیادہ تر اشتہار مقامی ہوتے ہیں جن کی بہت کم قیمت ہوتی ہے ۔ بیوٹی پارلر، بیکریاں، کاروں کے شو روم، بلکہ بعض دفعہ تو خاندان میں ہونے والی کسی موت کا اشتہار بھی دو ڈھائی ہزار دے کر مقامی ایف ایم ریڈیو پر چل جاتا ہے۔
غریب کا غریب کے ساتھ کاروبار بننا کسی بھی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہوتا ہے لیکن حکومت کہتی ہے کہ اب یہ نہیں چلے گا۔شاید حکومت کو ان سٹیشنوں کے نام سن کر لگتا ہو کہ یہ بڑی بلائیں ہیں، ان کو نتھ ڈالی جائے۔ لیکن ان ایف ایم ریڈیو کے سٹوڈیوز میں کی ہوئی باتوں سے یا چلائے گئے گانوں سے آج تک نہ کوئی حکومت گئی ہے نہ آئی ہے۔ ریڈیو آواز نیٹ ورک پاکستان کا سب سے بڑا ایف ایم ریڈیو نیٹ ورک ہے ہر چھوٹے بڑے شہر میں سستی ترین اور معیاری تفریح فراہم کر رہا ہے ہزاروں لوگ اس نیٹ ورک سے وابستہ ہیں لیکن کوئی نہیں جانتا کیآخر میں سب ملازمین کی تنخواہیں دینے کے بعد مالک کو صرف گانے بچتے ہیں جو وہ دورانِ سفر سن کر خوش ہو جاتے ہیں کہ یہ میرے ریڈیو پر چل رہا ہے. اسلام آباد میں ایک پاور ایف ایم نامی سٹیشن ہے۔ اسلام آباد کی پاور پالیٹکس میں اس کے کردار کے بارے میں کبھی سنا، نہ ہی کسی نے شکایت لگائی ہے
چار بڑے شہروں میں ایک ’مست ایف ایم‘ ہے۔ ہلکی پھلکی مستی کے علاوہ سن کر کبھی نہیں لگا کہ ریاست سے بغاوت کر دو۔ ’اپنا کراچی‘ سے پہلے بھی کراچی اپنا ہی تھا۔ ہاٹ ایف ایم نے پاکستان کو نہ زیادہ ٹھنڈا کیا ہے نہ گرم، بس ہماری بور دوپہروں کو تھوڑا خوشگوار بنایا ہے۔ایف ایم کا پورا کاروبار صرف گانوں پر چلتا ہے یا گفتگو پر۔ ایف ایم والوں کو باتیں کرنے کا بھی بہت شوق ہوتا ہے۔ اگر حکومت نے یہ ہزاروں آوازیں زبردستی آف ایئر کر دیں تو یہ زبانیں پھر بھی بند نہ ہوں گی اور پھر یہ آوازیں جو کچھ کہیں گی وہ ناقابل اشاعت ہو گا۔ ایسے حالات میں حکومت وقت کو اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرنی چاہیئے۔ ایک کروڑ نوکریاں دینے کے منشور پر آنے والی حکومت کو مہنگائی اور بے روزگاری کی چکی میں پسی ہوئی عوام سے روزگار چھیننا نہیں چاہیئے۔
کب تلک آئین کی آڑ میں ہم یونہی
ٹیکس کی توپ تلے آیسے ہی دبے جائیں گے
ضرورتیں کب تک دیکھیں گی تماشا اپنا
بازار کب تک مہنگائی کے سجے جائیں گے
قہر بن کے حکم اترتا ہے ایوانوں سے
دل کو اب خوف لگا رہتا ہے انسانوں سے
اے ڈی شاہد
2020_11_24