کیا یہی انسانیت ہے؟ 99

کیا یہی انسانیت ہے؟

کیا یہی انسانیت ہے؟

ملیکہ تزئین ناروال

کل سنی گفتگو حیوانوں کی چھپ کر میں نے
سبھی کہتے تھے انسانوں سے ڈر لگتا ہے
انسان کو اللہ تعالیٰ نے اشرف المخلوقات کا درجہ دیا ہے اور ساری دنیا انسان کے لیے قائم کر دی۔حیوان اور چرند پرند یہاں تک کہ دنیا کی ساری نعمتیں صرف اور صرف انسان کے قدموں میں نچھاور کر دیں مگر آج اگر اسی انسان کو دیکھا جائے تو وہ اپنے انسان نام کا مطلب بھی بھول چکا ہے۔جو چیزیں اس کے لیے پیدا کی گئیں ہیں وہ انہیں ہی نقصان پہنچا رہا ہے۔انسان انسانیت سے نکالا گیا لفظ ہے جس کے اگر مفہوم پر روشنی ڈالیں تو صرف پیار و محبت اور دردمندی کا پیکر ملے گا مگر اگر انسان کے اندر کی خصلت پر نظر ڈالیں تو آپ کو انسان میں انسانیت تو ملے گی ہی نہیں۔
میں پوچھتی ہوں کہ آخر ایسا کیوں ہے؟کس لیے ہے؟وہ کونسی تسکین ہے جو انسان کو اپنی ہی ذات سے کنارہ کشی پر مجبور کر دیتی ہے۔انسان اور خاص کر مسلمان یہ کیوں بھول چکا ہے کہ حکم ربانی کیا ہے۔کیا جنت کے لیے صرف عبادات ہی کافی ہیں؟کیا آپ کو اسلام کے ہر پہلو پر عمل کرنا ضروری نہیں ہے؟اللہ تعالیٰ نے حقوق اللہ کی تو معافی کا فرما دی ہے مگر حقوق العباد تو صرف بندہ ہی معاف کر سکتا ہے۔ایک دفعہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام سے مخاطب ہوتے ہوئے فرمایا”کیا تم جانتے ہو کہ مفلس کون ہے؟صحابہ نے عرض کیا: ہمارے نزدیک مفلس وہ شخص ہے

جس کے پاس کوئی پیسہ اور دنیا کا سامان نہ ہو۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایامیری امت کا مفلس وہ شخص ہیجو قیامت کے دن بہت سی نماز،روزہ،زکواۃ لے کر آئے گامگر حال یہ ہوگا کہ اس نے کسی کو گالی دی ہوگی،کسی پر تہمت لگائی ہوگی،کسی کا مال کھایا ہوگا،کسی کا خون بہایا ہوگایا کسی کا مارا پیٹا ہوگاتو اس کی نیکیوں میں سے،ایک حق والے کو اس کی نیکیاں دی دی جائیں گی،ایسے ہی دوسرے حق والے کواس کی نیکیاں دے دی جائیں گی۔پھر اگر دوسروں کے حقوق چکائے جانے سے پہلے اس کی نیکیاں ختم ہو جائیں گی،تو حق داروں اور مظلوموں کے گناہ ان سے لے کر اس شخص پر ڈال دیئے جائیں گے اور پھر اس شخص کو دوزخ میں پھینک دیا جائے گا۔(مسلم:باب تحریم الظم) تو کیا آپ یہ نہیں سمجھتے کہ حقوق العباد زیادہ اہمیت کے حامل ہیں؟
میں جب بھی اپنے معاشرے میں نظر دوڑاتی ہوں یا کچھ پڑھتی ہوں تو صرف ایک ہی چیز دیکھنے کو ملتی ہے اور وہ ہے انسان بنا انسانیت کے۔کہیں بچوں کو جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے تو کہیں جسمانی۔انسان تو انسان ہیں،آج کے انسانوں نے تو اپنے سے چھوٹی مخلوقات کو بھی کہیں کا نہ چھوڑا۔یہ وہی مخلوقات ہیں جو کہیں آپ کا پیٹ اپنے گوشت سے بھرتی نظر آتی ہیں تو کہیں اپنی محنت سے۔ارے کبھی سوچو تو سہی کہ کھیتوں میں فصلیں بیلوں کے ذریعے ہی اگائی جاتی تھیں اور آج بھی کہیں نہ کہیں کوئی غریب کسان اسی سے دو وقت کا پیٹ بھرتا ہوگا۔

آپ جن کھانوں سے لطف اندوز ہو رہے ہیں وہ بھی کسی حیوان کا ہی جسم ہے۔تو آخر ان پر اتنا ظلم کیوں؟جو آپ کے لیے پیدا کر دیئے گئے جو بے زبان ہیں خود کا دفع تک نہیں کر سکتے آپ ان پر تشدد کررہے ہیں۔وہ امت مسلمہ کی عظیم الشان اخلاقیات کہاں ہیں جو اپنے کم عمر بچوں کو ان بے زبانوں پر ظلم کرنے سے روکنے کے لیے نہیں بلکہ خود بھی اسی دلدل میں دھنسنے کے در پر ہیں۔آج عورتوں کی عزتیں تو پامال ہو ہی رہیں ہیں ساتھ ہی ساتھ معصوم بچیوں اور جانوروں تک کی عزتوں کو بھی پامال کرتے ہوئے ندامت کا ایک نشان بھی پیشانی پر رونما نہیں ہوتا۔کیا یہی اشرف المخلوقات کے کارنامے ہیں یا انسانیت کی زندہ مثالیں ہیں۔آج انسانیت صرف خود تک ہی محدود ہو چکی ہے خود کو ایک کانٹا بھی چب جائے

تو بہت محسوس ہوتا ہے مگر جو خنجر اپنے ہاتھوں،زبانوں،اور خیلات سے دوسرے انسانوں اور حیوانات کے دلوں اور روحوں کو چیرتا ہوا خدا بزرگ و برتر کی عدالت پر دستک دیتا ہے اس کا کبھی کسی نے سوچا؟یا جو انسانیت کی دہلیز پار کر لی اس کا کبھی سوچا ہے کسی نے؟نہیں بلکل نہیں ہم کیوں سوچیں ہم تو اشرف المخلوقات ہیں تو ہر چیز ہی ہمارے لیے ہے۔ہمیں سوچنے کی کیا ضرورت مگر ایک بار صرف ایک بار سوچیں کہ کیا جس عہدے پر اللہ تعالیٰ نے آپ کو فائض کر دیا ہے کیا آپ اس عہدے کے حق دار ہیں؟کیا آپ جنت کے حق دار ہیں؟کیا آپ اشرف المخلوقات کہلانے کے حق دار ہیں؟کیا آپ انسان کہلانے کے حق دار ہیں؟یہ سوچنے کی بات ہے زرا سوچیں کیا آپ کے آس پاس کے لوگ آپ سے خود کو محفوظ محسوس کرتے ہیں؟کیا جانور حیوان آپ کی پناہ میں آسکتے ہیں؟
کیا آپ بھول چکے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان کیا ہے؟کیا آپ یہ بھول چکے کہ محسنِ انسانیت نے کیا تلقین فرمائی تھی۔حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ”بدکار عورت کی بخشش صرف اس وجہ سے کی گئی کہ ایک مرتبہ اس کا گزر ایک ایسے کنویں پر ہوا جس کے پاس ایک کتا کھڑا پیاس کی شدت سے ہانپ رہا تھا،اور قریب تھا کہ وہ پیاس کی شدت سے ہلاک ہوئے جائے،کنویں سے پانی نکالنے کو کچھ تھا نہیں اس عورت نے اپنا چرمی موزہ نکال کر اپنی اوڑھنی سے بھاندہ اور پانی نکال کر اس کتے کو پلایا اس عورت کا یہ فعل بارگاہِ الٰہی میں مقبول ہوا

اور اس کی بخشش کر دی گئی”۔تو زرا سوچیں آپ کیا کر رہے ہیں اپنے ہاتھوں ہی جانوروں اور انسانوں کو تکلیف دے رہے وہ بچارے تکلیف زدہ بے زبان و لاغر آپ کو کیا بول سکتے ہیں۔مگر خدا تو سب دیکھ رہا وہ جو چاہے کر سکتاہے۔قرآن میں بارہا ذکر کیا گیا ہے کہ ”بے شک اللہ ہر چیز پر قادر ہے”تو زرا سوچیں جس نے اس دنیا کو قائم کر دیا جس کے ایک زرہ برابر چیز پر آپ حکومت کر کہ انسانیت کے معیار سے گر رہے ہیں وہ اس پوری کائنات کا پیدا کرنے والا آپ کے ساتھ کیا کچھ نہیں کرسکتا تو سوچیں کہ کیا آپ واقعی میں اسلام پر عمل کر رہے ہیں؟کیا واقعی میں آپ اشرف المخلوقات ہونے کے حق دار ہیں؟کیا آپ جنت کے حق دار ہیں؟کیا آپ بنا انسانیت کے انسان نہیں بن چکے۔تو سوچیے یہ سوچنے کی ہی بات ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں