عوام دوست میثاق سیاست کی ضرورت!
تحریر:شاہد ندیم احمد
ہمارے سیاسی رہنمائوں نے ماضی سے سبق نہ سیکھنے کی قسم کھارکھی ہے ،ایک دوسرے سے دست گریباں کچھ کر گزرنے کی دُھن میں بھول چکے ہیں کہ بل آخرنقصان اپنا ہی ہو گا،اپوزیشن کا مقصد حکومت گرانا ،جبکہ حکومت بھی اپو زیشن کو سبق سیکھانے پر تُلی ہے، ملک میں الزام تراشی کی سیاست اپنے عروج پر ہے، بستر مرگ پر پڑے مریض کا مزاق اُڑایا جاتا ہے توکبھی مرنے والوں کے بارے میں ایسے جملے کسے جاتے ہیں کہ خوف آنے لگتا ہے
۔اصولی طور پر حزب اختلاف سے زیادہ حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے کہ ماحول کو بہتر بنائے رکھنے کے لئے رواداری کو فروغ دے، مگر حکومتی اکابرین مفاہمتی کلام کی بجائے آگ کے گولے برسارہے ہیں،اس سیاسی قائدین کی روش سے متاثر پیروکاردو قدم آگے نکل کر حق پیروی اداکرتے ہیں تونتیجہ عوام ہی کوبھگتنا پڑتاہے ۔
اس میں شک نہیں کہ عرصہ د راز سے سیاسی قیادت کے رویوں کی سزا عوام بھگت رہے ہیںاور بظاہر ایسا ہی لگتا ہے کہ اصلاح احوال کی کوئی صورت نہیں بچی،تاہم مقتدر قوتیں کوئی درمیانی راستہ نکال کر سیاسی الودگی میں بہتری لا سکتی ہیں۔گزشتہ مسلم لیگ (ن )اور پیپلزپارٹی کے درمیان ہونے والے میثاق جمہوریت کا پس منظر یہی تھا،تاہم میثاق جمہوریت کے سیاسی نکات کو زیر بحث لانے والوں نے کبھی اس امر پر توجہ نہیں دی کہ میثاق جمہوریت سیاسی عمل میں شائستگی لانے اور سیاست برائے نفرت کی بجائے سیاست کو نظر یہ سازی کا عہد نامہ ہے۔اس میثاق جمہوریت پر روح کے مطابق عمل نہ ہو پایا ،اگراس میثاق جمہوریت پر باہمی مشاورت سے عمل ہو جاتا توآج یہ بات اچھی طرح سمجھ میں آجانی تھی
کہ دشنام طرازی،الزامات اور کفن نوچنے کے نتائج کیا نکلتے ہیں ۔اپوزیشن جماعتیں سب منفی نتائج سے بے پرواہی کا مظاہرہ کرتے ہوئے احتجاجی مظاہروں پر تُلی ہیں، حکومت کورونا کا شور مچا رہی ہے، لیکن اپوزیشن جماعتیں کچھ بھی ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ اصولی طور پر جلسے جلوسوں کی بندش کے علاوہ ماسک، سماجی فاصلہ اور بھیڑ سے بچاؤ کے لیے جس قومی اتفاق رائے کی ضرورت ہے، اس کا عندیہ نہ اپوزیشن جماعتوںسے ملتا ہے نہ ریاستی رٹ قائم رکھنے کے لیے حکومت بالمشافہ اعلیٰ سطح کے جمہوری مکالمہ کے لیے رضامند ہے۔ اس صورت حال میں تصادم کا خدشہ ہے جو کسی صورت ملک و جمہوریت کے مفاد میں بہتر نہیں ہے،
حکومت کو ملکی حالات کی گھمبیرتا کا ادراک کرتے ہوئے ذاتی انا سے بالا تر ہو کر سیاسی مصالحت اور خیر سگالی سے سیاسی تناؤ کا خاتمہ کرنے کی کوشش کرنا چاہئے، عوام کو سیاسی ومعاشی ثمرات دینے کے لیے ضد اور ہٹ دھرمی سے نہیں، دوطرفہ پارلیمانی اور جمہوری اسپرٹ اور سیاسی فہم و فراست سے کام لینے کا وقت ہے۔
یہ صورتحال افسوسناک ہے کہ سیاسی فریقین اپنے مفادات کے پیش نظر جمہوری اسپرٹ کا مظاہرہ کرنے کیلئے تیار نہیں ، اس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ اس وقت ملک کے اندرونی و بیرونی حالات سازگار نہیں ہیں ، ایک طرف ملک کی سر حدوں پر دشمن کاروائیاں کررہا ہے تو دوسری جانب کورونا کی شدید لہر حاوی ہے ، خدا کے لئے ملک دشمن اورکورونا وباء کو سنجیدگی سے لیجئے،سیاست وحکومت کے لئے ایک پررونق سماج ضروری ہے،
اگرخاکم بدہن انفرادی واجتماعی طور پر اپنائے گئے غیر ذمہ دارانہ رویوں سے رونقیں اُجڑ گئیں تو کیسی حکومت اور کیسے اپوزیشن جماعتوں کی سیاست ہو گی، دنیا بھر میں سیاست حصول حکومت برائے خدمت خلق کی فہم پر ہوتی ہے، ہمارے یہاں تو سیاست کا باوا آدم ہی نرالا ہے ،یہاں سیاست کے نام پراقتدار سب ہی چاہتے ہیں،مگر خلق خدا کے لئے اپنی ذات جتنا درد بھی کسی کو محسوس نہیں ہوتا ہے۔اس غیرسیاسی فہم پر نظر ثانی کی ضرورت ہے، مگر اس کا کیا کیا جائے کہ جس ملک میں ایک جانب
سے جنازوں پر سیاست کی جائے اور دوسری جانب سے ٹھٹھہ اڑایا جائے، وہاں سنجیدہ فہمی جاگتی آنکھوں کا خواب ہی کہلاتی ہے۔
بدقسمتی سے ہماری سیاسی قیادت جمہوریت میںمفادات کی سیاست اور آمرانہ روئیوں کی عادی ہو چکی ہے، پیپلز پارٹی ہو یا مسلم لیگ (ن) دونوں نے ہی اپنے دور اقتدار میں جمہوریت کو خوب برتا ، جمہوریت کے نام پر اپنی من مانی کی، جمہوریت کی آڑ میں دولت کے انبار لگالیے اور ملک کو کنگال کر ڈالااور اب تبدیلی سرکارآئی جمہوریت کو گود میں لیے پھر رہی ہے۔ اس نے این آر او کا ایک ایسا میجک بکس تیار کیا ہے،
جس میںتمام مسائل کا حل موجود ہے، لیکن اپوزیشن کو ترسا ترسا کر مارے گی،این آر او نہیں دے گی۔ جمہوریت پر دعویٰ اپوزیشن کا بھی ہے، لیکن جس کے ہاتھ میں طاقت ہے، جمہوریت پر اسی کا قبضہ ہے اور وہ جمہوریت کو تخت پر بٹھا کر حکمرانی کررہے ہیں ۔ ملک کے مفاد اور استحکا م وترقی کے لیے لا زم ہے کہ اس عفریت کے چنگل سے جلد سے جلد نکلا جائے ، حالا ت کو سدھار نے کی ذمہ داری صرف تیسر ی طا قت کے فرائض میں شامل ہے نہ ہی کسی فر د واحد کے کھاتے میں آتی ہے۔ملکی حالا ت کے بگاڑ اور سنوار نے میں سب سے زیادہ ذمہ دار حکو مت وقت ہو تی ہے ،مروجہ سیاست،عدم برداشت دشنام طرازی اوردیگر نامناسب معاملات نے جہاں لاکھڑا کیا ہے، اس سے نجات کی واحد صورت ایک عوام دوست میثاق سیاست سے ہی ممکن ہے، اس حوالے سے تاخیر نقصان کا باعث بنے گی، اس حقیقت کو اہل سیاست جتنی جلدی سمجھ لیں گے ، اتناہی سب کے حق میں بہتر ہوگا۔