سوچ کا حکمران 126

سوچ کا حکمران

سوچ کا حکمران

میمونہ ارم مونشاہ
کہتے ہیں کہ دنیا میں کسی انسان سے سب سے زیادہ محبت اس کی ماں کرتی ہے بلاشبہ یہ سچ ہے کہ ایک ماں ہی اپنے جگر کے گوشے کے لیے اپنی جان تک کی پرواہ نہیں کرتی اسے خوش دیکھنا چاہتی ہے مگر رب تعالیٰ کی ذات اس ماں سے بھی ستر گنا زیادہ محبت کرتی ہے وہ ذات جو انسان کی شہہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے۔۔۔ انسان جو سوچتا ہے جو کرنے کی نیت کرتا ہے اللہ کو سب پہلے سے علم ہوتا ہے۔ ایسا نہیں ہوتا کہ اللہ اس سے یہ سب کروائے بلکہ یہ انسان کی اپنی مرضی ہوتی ہے کہ وہ سوچتا ہے، کیا کرتا ہے اور کیا بولتا ہے یہ اس کے خود کے نفس پر منحصر ہوتا ہے۔
بیشک اللہ سے زیادہ انسان کا مخلص کوئی بھی نہیں۔ اگر وہ توڑتا ہے تو اس میں بھی اسکی کوئی نہ کوئی مصلحت ہوتی ہے۔ ہو سکتا ہے وہ کسی غلط راہ پر جانے سے روک رہے ہوں یہ آنسو وقتی ہوتے ہیں کیونکہ اگر ایک جگہ سے درد ملے مگر اللہ پر بھروسہ کرتے ہوئے اپنے من کو صبر پر راضی کر لیا جائے تو اللہ بھی اس اعتماد کا مان رکھتے ہوئے اتنا بہترین عطا کرتا ہے کہ انسانی عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ وہ انسان جو اللہ پر بھروسہ رکھے اس کے معجزات بھی وقوع پذیر ہوتے ہیں اور وہ خود ان کے ہونے کی تصدیق کرتا ہے۔ وہ ہمیشہ شکر بجا لاتا ہے اپنے رب کا عاجز ہو کر رہتا ہے۔

خود غرضی، خود پرستی جیسے جذبے اس سے ہمیشہ کے لیے دوری اختیار کر لیتے ہیں۔ پھر جب انسان کو کوئی دوسرا ایسے ہی پریشاں حال ملے جو اپنی زندگی کی تلخیوں سے تنگ آچکا ہو تو وہ اپنے تجربات کی روشنی میں ہمیشہ اسے سمجھاتا رہتا ہے، تقدیر سے بدگمان ہونے سے بچانے کی مکمل کوشش کرتا ہے وہ اسے بتاتا ہے کہ اگر کوئی مصیبت آئی ہے تو یہ اللہ پاک کی طرف سے آزمائش ہے وہ تم سے پیار کرتے ہیں تبھی وقتی دکھ دے کر حوصلہ آزما رہے ہیں بیشک اس کے بعد اور آخرت میں بہترین اجر ملے گا۔ غرضیکہ وہ انسان جو خود اللہ کے بھروسے آگے بڑھتا جاتا ہے وہ اپنی ہر ممکن کوشش سے دوسروں کو یہ ترغیب دیتا ہے کہ وہ بھی ثابت قدم رہیں

اور بھٹکیں نہیں۔ اللہ پاک کی محبت انسان کو عاجزی اور محبت کرنا سکھاتی ہے۔ اور ایک نیک کی اسی عاجزی کی وجہ سے بہت سے بھٹکے ہوئے لوگ اپنی زندگی کے حقیقی مقصد تک پہنچ جاتے ہیں۔ وہ جان لیتے ہیں کہ وہ اللہ کے پیارے ہیں اور ان کے دل میں اپنے رب کے لیے رکھی فرمانبرداری مزید حد تک بڑھتی چلی جاتی ہے۔
اور اب تصویر کا دوسرا رخ دیکھتے ہیں جب ہم کوئی ایسا انسان دیکھتے ہیں جو ہر وقت اللہ، اللہ کرتا ہے جب دیکھو اللہ کی تعریفیں اور اسکا ذکر کرنے میں مشغول نظر آتا ہے۔ ایسے انسان کو دیکھ کر اس پر رشک ہونے لگتا ہے من میں ایک آرزو جنم لیتی ہے ہم بھی اس کے جیسے نیک بن جائیں پھر لوگ اسی کی صحبت میں رہنا شروع کر دیتے ہیں شاید اسی کے ذریعے اللہ تک پہنچنے کا رستہ مل جائیں۔ معافی مل جائے اور اللہ مہربان ہو جائے مگر آہستہ آہستہ جب اس انسان کے ساتھ رہتے اس کی اصلیت معلوم ہوتی ہے تو پتا چلتا ہے یہ عبادتیں تو محض دکھاوے کے سوا کچھ بھی نہیں۔

مگر وہ انسان اس چیز کو ماننے کو تیار نہیں ہوتا وہ جب دیکھتا ہے کہ اس چیز کی وجہ سے لوگ اسے اتنی عزت دے رہے ہیں تو بجائے اللہ کا عاجز بننے کے اس میں ایک مغرورانہ کیفیت اجاگر ہو جاتی ہے وہ اپنے اصل سے اس حد تک غافل ہو جاتا ہے کہ اللہ پر جھوٹ باندھنا شروع ہو جاتا ہے کہ اللہ کی نظر میں مجھ سے نیک اور پرہیزگار کوئی بھی نہیں۔ اللہ کی نظر میں اسکا دیوانہ اور چاہنے والا صرف میں ہوں۔ اس نے پوری کائنات میں سے صرف مجھے چنا ہے جس سے زیادہ اس سے محبت کوئی نہیں کرتا (نعوذ باللہ)۔ ٹھیک ہے یہ سچ ہے اللہ اپنے ہر بندے سے بہت محبت کرتا ہے وہ نیکوکاروں سے ملنے کا انتظار کرتا ہے مگر کیا کبھی اللہ نے کسی انسان کا نام لے کر کہا کہ فلاں سے بڑھ کر میرے لیے اہم کوئی بھی نہیں؟

یہ تو سراسر جھوٹ باندھنا ہوا نا۔ بلاشبہ امتی رسولﷺ ہونے کے ناطے اللہ رب العزت کو ہم سے بہت زیادہ محبت ہے لیکن یہ محبت کا دائرہ کار بہت سے مراحل پر مشتمل ہے ایک انسان جسے اللہ کی بنائی مخلوق سے آگے بڑھنے کی چاہ ہو۔ چاہے دینی مراحل ہوں یا دنیاوی سلسلے، وہ کیسے کہہ سکتا ہے وہ اللہ کا چہیتا ہے۔ تو اہل علم کے مشورے کے بعد یہ چیز کہی جاسکتی ہے کہ ایسی باتیں کہنا جھوٹ باندھنا ہوتا ہے اور جو انسان ایسا کرے اسکی باتوں پر تقلید کی جائے تو اسے مزید بڑھاوا ملتا ہے خیال رہے جو چیز آپکی نظر میں اسلام کے مطابق ٹھیک نہیں ہے اسے غلط ہی کہیں بجائے اس کے کہ آپ چپ سادھ لیں۔ یہ ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے۔
آج کل سب کا کہنا ہے جو جیسا کرتا ہے کرنے دو، ہمیں اپنے کام سے کام رکھنا چاہیے۔ نہیں بالکل بھی نہیں۔ بلکہ یہ خود غرضی کی انتہا ہے ہم اپنے سامنے غلط ہوتے کیسے دیکھ سکتے ہیں۔ کم از کم جو غلط ہو اسے غلط کہنا تو آنا چاہیے اگر کوئی مہذب بھی ہے تو اس میں کوئی خامی دکھائی دے تو یہ جائز ہے کہ اسے الگ سے سمجھایا جائے۔ اندھا دھند تقلید کرنے کا مطلب ہے برائی کو مزید بڑھاوا دیا جائے اور ایسا کرنے کی اجازت نہ تو انسان کو اس کا ضمیر دیتا ہے

اور نہ آسکا رب۔ ہمیشہ یہی دعا رہے کہ اللہ ہر شی بشر کے نفس کو ہمیشہ اپنی راہ پر گامزن کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ ہم میں وہ جذبے جیتے جی مر جائیں جن کی بنا پر ہمیں اپنا آپ دوسروں سے افضل دکھائی دینے لگے۔ اور اللہ ہی نظر میں تو سب برابر ہیں انسان کو جب اپنی ہی نیت کے بارے میں علم نہیں کہ وہ رب کے ہاں کون سے مقام پر فائز ہے تو وہ کس بنا پر کہہ سکتا ہے رب کو اس سے زیادہ عزیز کوئی بھی نہیں۔ وہ ذات جو سوچ پر بھی حکمران ہے وہ اس سوچ کو متکبر ہونے سے بچائے۔ آمین

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں