ایچ آ ئ وی ایڈز جان لیوّا ہے 96

ایچ آ ئ وی ایڈز جان لیوّا ہے

ایچ آ ئ وی ایڈز جان لیوّا ہے

تحریر۔حماد رضا
یہ بیسویں صدی کے ابتدائ عشروں کی بات ہے جب ایک جان لیوا وائرس چمپینزی بندروں سے انسانوں میں منتقل ہوا ابتدائ طور پر اس کے بارے میں یہ اندازہ لگایا گیا کہ مغربی افریقہ میں شکار کی غرض سے جانے والے شکاریوں میں یہ وائرس بندروں سے منتقل ہوا جس کے بعد یہ افریقہ سے ہوتا ہوا پوری دنیا میں پھیل گیا بعد کی تحقیقات سے یہ بات منظرِ عام پر آئیں کے اس جان لیوا وائرس کا نام ایچ آئ وی ہے جو ایڈز جیسی مہلک بیماری کا سبب بنتا ہے ایک ایسی ہلاکت خیز بیماری جو وبائ شکل اختیار کر کے کروڑوں افراد کی موت کا سبب بنی دنیا بھر میں ایڈز سے ہونے والی کل اموات کا پچاس فیصد سے زیادہ افراد کا تعلق افریقی ملکوں سے تھا چونکہ اس بیماری کے متعلق دریافت گزشتہ صدی میں ہوئ

اس لیے ایڈز کو بھی نسبتاً نئ بیماریوں میں شمار کیا جاتا ہے پاکستان سمیت دنیا بھر میں ہر سال یکم دسمبر کو ایڈز سے آگاہی کا عالمی دن منایا جاتا ہے اگر وطنِ عزیز کی بات کی جاۓ تو ہمارے ملک میں ہزاروں کی تعداد میں ایچ آئ وی ایڈز کے رجسٹرڈ مریض موجود ہیں اس مرض میں مبتلا ہونے والا مریضوں کا سب سے بڑا مسئلہ ان کے خلاف پری جوڈس اور ڈسکریمینیشن کا رویہ ہے ایڈز کے مریضوں کو ایسے رویے کا سامنا مغربی ملکوں میں بھی کرنا پڑتا ہے جس کا سب سے بڑا سبب شائد بیماری کے بارے میں بنیادی معلومات کا نا ہونا ہے لوگوں کا ایڈز سے متاثرہ مریض سے زیادہ نفرت کا سبب یہ بھی ہے کے اکثر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ شخص ایڈز میں اس لیے مبتلا ہوا کہ ہو نا ہو اس نے ضرور متعد د افراد سے جنسی تعلقات قائم کیے ہوں گے

حلانکہ یہ دلیل بالکل غلط ہے ایڈز کا وائرس اور بھی بہت سے طریقوں سے انسانی جسم میں منتقل ہوتا ہے اور ویسے بھی ایڈز متعدد افراد سے جنسی تعلق قائم کرنے سے نہیں بلکہ ایچ آئ وی پازیٹو فرد سے جنسی تعلقات کے نتیجے میں کسی صحت مند فرد میں منتقل ہوتا ہے اس کے ساتھ ساتھ پاکستان میں حماموں اور عطائ ڈاکٹروں نے مرض کے پھیلانے میں اہم کردار ادا کیا ہے کچھ عرصہ پہلے سندھ میں ایچ آئ وی پازیٹو کے متعدد مریض سامنے آۓ حکومتی سطح پر جب تحقیقات کی گئیں تو یہ بات سامنے آئ کے گاؤں کا کمپوڈر ایک ہی سرنج کا بار بار استعمال کرتا رہا

ایسے لوگوں کو سخت سزا دینے کی ضرورت ہے جن کی معمولی سی غلطی کے سبب لوگ اس موذی بیماری کا نشانہ بن جاتے ہیں ایڈز کا وائرس صحتمند جسم میں داخل ہوتے ہی ساکت ہو جاتا ہے اس مرض کی فوری طور پر کوئ علامات ظاہر نہیں ہوتیں اس بیماری کا وائرس انسان کے مدافعتی نظام پر حملہ کر کے اسے تباہ و برباد کر دیتا ہے جس کے بعد انسانی جسم میں بیماریوں کے خلاف مدافعتی نظام بالکل نا کارہ ہو جاتا ہے اور متاثرہ شخص مختلف بیماریوں کا شکار ہو کر تین سے آٹھ سال میں لقمہ اجل بن جاتا ہے لیکن مناسب احتیاطی تدابیر اختیار کر کے اس مرض سے بچا جا سکتا ہے خاص طور پر اگر آپ کسی ڈینٹسٹ کا وزٹ کریں تو اس بات کو یقینی بنائیں کہ اول تو ڈینٹسٹ سرجن ہے اور دوسرا کیا

وہ اپنے سرجری کے آلات کو سٹیرائز ڈ کرتا ہے اس کے کلینک میں صفائ ستھرائ کا کیا انتظام ہے اس کے ساتھ ساتھ ہمیں چاہیے کہ قربت کے تعلقات میں سخت احتیاط برتی جاۓ اور اسے صرف اور صرف اپنے جیون ساتھی تک محدود رکھا جاۓ انتقالِ خون کی ترسیل کو بھی مؤثر بنانے کی ضرورت ہے کسی بھی مریض کو ایڈز کے جراثیم سے پاک تصدیق شدہ خون لگوانا چاہیے احتیاط کے ساتھ ساتھ اس دن کی مناسبت کے حساب سے ہمیں ایڈز کے مریضوں کے خلاف اپنے اگریسو رویوں کو بھی تبدیل کرنے کی ضرورت ہے ایچ آئ وی کے مریضوں سے معاشرے میں ایسا سلوک روا رکھا جاتا ہے

جیسے وہ خدانخواستہ اپنی بیماری کا ذمے دار خود ہے ایسے جیسے اس نے خود کہیں سے اپنے اندر اس بیماری کا وائرس انجیکٹ کر لیا ہو اس قسم کے مریض ہماری خاص توجہ کے مستحق ہیں یہ بھی ایسے ہی ایک بیماری ہے جس طرح روۓ زمین پر دوسری بیماریاں موجود ہیں اگر خدا نا کرے کوئ شخص اس مرض کا شکار ہو بھی جاتا ہے تو اسے گبھرانے کی کوئ ضرورت نہیں آجکل کے جدید سائنسی دور میں اب اس طرح کی ادویات آچکی ہیں جنہیں کھا کر ایڈز کا مریض بیس سے تیس سال تک زندہ رہ سکتا ہے جدید طریقہ علاج نے اس مرض پر قابو پانے میں نہایت اہم کردار ادا کیا ہے اور اب یہ امید کی جا سکتی ہے کے مستقبل قریب میں اس بیماری سے متعلق مزید کامیابیاں انسان کا مقدر ہوں گی۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں