معذور افراد کا عالمی دن 115

معذور افراد کا عالمی دن

معذور افراد کا عالمی دن

تحریر۔حمادرضا
سٹیفن ہاکنگ کے نام سے بھلا کون واقف نہیں ہو گا اس عظیم ہستی کا شمار حالیہ دور کے عظیم ترین سائنس دانوں میں کیا جاتا ہے پروفیسر سٹیفن جب بائیس برس کے تھے تو موٹر نیورون ڈزیز کا شکار ہو کر مستقل معذوری سے دوچار ہو گیے لیکن اس عظیم انسان نے معذوری کو اپنے لیے مستقل روگ نہیں بننے دیا بلکہ وہیل چیئر پے بیٹھ کر سائنس کی دنیا میں وہ کارہاۓ نمایاں سر انجام دیے جن کا شائد ایک مکمل طور پر صحتمند شخص کبھی تصور بھی نہیں کر سکتا اس ساری تمہید کو باندھنے کا مقصد یہ ہے کہ تین نومبر کو پوری دنیا میں معذور افراد کا عالمی دن منایا جاتا ہے

جس کا مقصد معذور افراد کی فلاح کے لیے اقدامات کرنا اور ان کے حقوق کے لیے آواز بلند کرنا ہے ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی ایک رپورٹ کے مطابق ایک بلین لوگ یا یوں کہیں کہ پوری دنیا کی آبادی میں سے پندرہ فیصد لوگ کسی نا کسی طرح کی معذوری کا شکار ہیں ڈبلیو ایچ او نے اس سال اس دن کو اے ڈے فار آل کے عنوان سے منانے کا اعلان کیا ہے پاکستان میں بھی ایسے افراد کی کثیر تعداد موجود ہے جو مختلف وجو ہات کی بنا پر کسی نا کسی جسمانی معذوری کا شکارہیں ایسے جسمانی طور پر معذور افراد کو سماجی طور پر بھی مختلف مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے

خصوصاً اگر بچوں کی بات کی جاۓ تو والدین بھی معذوری کا شکار بچوں کو صحت مند بچوں کی نسبت کم اہمیت دیتے نظر آتے ہیں اکثر ایسے بچوں کی معذوری کو بہانا بنا کر ان کے تعلیمی اخراجات سے بھی منہ موڑ لیا جاتا ہے جس کے نتیجے میں ذہنی معذوری کے ساتھ ساتھ بچے میں احساسِ کمتری کا جذبہ بھی ابھر کر سامنے آتا ہے پاکستان میں ایک بڑی تعداد پولیو کے مرض کی وجہ سے معذوری کا شکار ہے لیکن ملک میں ایسے لوگوں کی بھی کمی نہیں ہے جنہوں نے اپنی معذوری کو پسِ پشت ڈال کر اعلی تعلیم حاصل کی لیکن یہاں پر افسوس ناک امر یہ ہے

کہ ایسے سپیشل پرسنز کو اعلی ڈگری حاصل کرنے کے باوجود معاشرہ وہ عزت و احترام نہیں دیتا جس کے وہ اصل حق دار ہیں ایسے افراد کو تعلیم کے باوجود نوکریوں کے حصول کے لیے سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے حکومت نے ان افراد کے لیے ملازمتوں کا ایک مخصوص کوٹہ مقرر کر رکھا ہے جو بالترتیب خیبر پختواخواہ اور پنجاب میں دو سے تین فیصد ہے اگر بلوچستان کی بھی بات کی جاۓ تو وہاں یہ کوٹہ پانچ فیصد تک ہے اس خصوصی کوٹے کے باوجود بھی معذور افراد کی شکایات وہاں کی وہاں ہیں جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ کہیں نا کہیں کوئ نا کوئ کمی ضرور ہے

پنجاب آبادی کےلحاظ سے سب سے بڑا صوبہ ہے اس لیے سپیشل پرسنز کے حساب سے یہاں کوٹہ بھی زیادہ ہونا چاہیے تا کہ ایسے افراد کو ملازمت کے زیادہ سے زیادہ مواقع میسرّ آسکیں یا د رکھیں معذور ہونا قطعاً گناہ نہیں ہے لیکن خود کو معذور سمجھ بیٹھنا یقینی طور پر گناہ کے زمرے میں آتا ہے اوپر ذکر کردہ اسٹیفن ہاکنگ کی زندگی کسی بھی طرح کی جسمانی معذوری سے نبرد آزما افراد کے لیے انسپریشن سے کم نہیں ہے معاشرتی طور پر ایسے افراد کی اگر بھر پور حوصلہ افزائ کی جاۓ اور حکومت بھی سر پرستی کرے تو ایسے افراد کو معذوری کے باوجود اپنے پیروں پر کھڑا کیا جا سکتا ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں