’’سیالکوٹ موٹر وے واقعہ اور اینٹی ریپ آرڈیننس‘‘ 92

’’کاون ہاتھی کو مل گیا ساتھی‘‘

’’کاون ہاتھی کو مل گیا ساتھی‘‘

پاکستان میں لاکھوں افراد ایسے ہیں جو کسی نہ کسی طرح معاشرے میں اکیلے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ یہ ہمارا معاشرتی المیہ ہے، کیونکہ ہم اتنے بے حس ہو چکے ہیں کہ من حیث القوم کسی کو کسی سے کوئی غرض نہیں، زمانہ کی جدت نے تو حالات اس نہج پر پہنچا دیئے ہیں کہ اکثر لوگوں کو اپنے ہمسائے تک کا علم نہیں ہے، اکیلے رہنے والوں میں سے اگر کوئی فوت ہو جائے تو اسے عزیز یا اہل محلہ دفن کر کے بھول جاتے ہیں، ہمارے ملک میں انسانوں کی طرح جانوروں کی کوئی حیثیت نہیں ہے، سڑکوں، شاہرائوں پر روزانہ گاڑیوں کی زد میں آ کر جانوروں کی اموات روز مرہ کا معمول ہے جن کی باقیات بھی گاڑیوں کے پہیے روندتے اور جانوروں کی باقیات جانوروں کی ہی خوراک بنتی ہے، مگر یورپ میں ایسا نہیں ہے،

وہاں انسانوں کی طرح جانوروں کی بھی اہمیت ہے، انسانوں کی طرح جانوروں کیلئے تفریح کا سامان مہیا کرنا، کھانے پینے کے ساتھ طبی سہولیات فراہم کرنا جانور پالنے والوں کے ساتھ ساتھ حکومت کی ذمہ داری میں شامل ہے، اگر کوئی جانور یا پرندہ انہونی موت مر جائے تو اس کی موت کی باقاعدہ تحقیقات حکومتی سطح پر ہوتی ہے، موت کی وجہ تلاش کر کے اس کا تعین کیا جاتا ہے اگر کوئی فرد کسی جانور پر تشدد یا اسے اذیت دینے کا مرتکب پایا جائے تو اسے قانون کے مطابق سزا دی جاتی ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں جانوروں کو گھروں میں بھی تنہا نہیں رکھا جاتا، بلکہ کئی ممالک میں جانوروں کیلئے کئی کئی ایکڑ پر محیط فارم جنہیں ہم ’’باڑے‘‘ کہتے ہیں بنائے گئے ہیں، جن میں جانوروں کو رکھ کر ہر طرح کی سہولت دی جاتی ہے،

پاکستان میں تو انسانوں کے حقوق کیلئے کام کرنے والی تنظیمیں فرضی خانہ پوری کر کے ڈنگ ٹپا رہی ہیں، لیکن یورپی ممالک میں جانوروں کے حقوق کے تحفظ کیلئے باقاعدہ تنظیمیں کام کر رہی ہیں۔ انہی میں جانوروں کے حقوق کیلئے کام کرنے والی ایک تنظیم فورپائوس ہے جو کہ گاہے بگاہے دنیا کے مختلف بالخصوص غیر ترقی یافتہ ممالک کے چڑیا گھروں کے دورے کر کے ان چڑیا گھروں میں مقیم جانوروں کے احوال اور انہیں دی جانے والی سہولتوں بارے رپورٹس مرتب کرتی رہتی ہے کے ایک وفد نے 2019 میں پاکستان میں چڑیا گھروں کا دورہ کیا تو انہیں معلوم ہوا

کہ اسلام آباد کے چڑیا گھر میں کاون نامی ہاتھی تنہا ہے، تنہا ہونے کے باعث کاون کی صحت خراب ہو رہی ہے، اس کے پائوں زنجیروں کی وجہ سے زخمی ہیں اور کاون ہاتھی مایوسی کی زندگی گزار رہا ہے، کاون کا اس طرح تنہا رہنا جانوروں کے حقوق کی خلاف ورزی ہے، غیر ملکی تنظیم نے رپورٹ مرتب کر کے جانوروں کے حقوق کیلئے کام کرنے والی دیگر انٹر نیشنل تنظیموں کے ساتھ رابطہ کر کے حکومت پاکستان پر زور دیا کہ وہ کاون ہاتھی کو آزاد کرے؟

کاون ہاتھی 1981ء میں سری لنکا میں پیدا ہوا، 1985ء میں اس وقت کے فوجی حکمران جنرل ضیاء الحق کی بیٹی زین ضیاء نے ہاتھی کی خواہش کا اظہار کیا ، سری لنکا کی گورنمنٹ نے ہاتھی کے 4 سالہ بچے کاون کو پاکستان کے سربراہ مملکت جنرل ضیاء الحق کو تحفہ میں دیا ، کیونکہ یہ سری لنکن حکومت کا پاکستان حکومت کو دیا ہوا تحفہ تھا اس لئے بیٹی کی خواہش کے باوجود جنرل ضیاء الحق نے کاون ہاتھی کو اسلام آباد کے چڑیا گھر میں منتقل کروا دیا، 1991ء میں بنگلہ دیش نے پاکستان کو ایک ہتھنی ’’سہیلی‘‘ تحفہ میں دی، اس طرح کاون اور سہیلی کی جوڑی چڑیا گھر میں آنے والے خواتین و افراد بالخصوص بچوں کی توجہ کا مرکز رہی، 2012ء میں ہتھنی ’’سہیلی‘‘ بیمار ہونے کے باعث موت واقع ہو گئی، جس کے بعد کاون ہاتھی ذہنی دبائو کا شکار ہو کر رہ گیا اور وہ اکثر چڑیا گھر کی دیواروں اور درختوں سے ٹکراتا رہتا تھا۔
دوسری طرف جانوروں کے حقوق کیلئے کام کرنے والی دنیا بھر کی تنظیموں نے کاون ہاتھی کو آزاد کرانے کیلئے باقاعدہ تحریک شروع کر دی اورمختلف ذرائع سے حکومت پاکستان پر اپیل کی جا رہی تھی کہ کاون ہاتھی کو کسی ایسے ملک منتقل کیا جائے جہاں پہلے سے ہاتھیوں کی بڑی تعداد موجود ہو، بالآخر حکومت پاکستان نے جانوروں کے حقوق کیلئے کام کرنے والی تنظیموں کے دبائو میں آ کر کاون ہاتھی کو کمبوڈیا بھجوانے کا فیصلہ کیا

اور کمبوڈیا بھجوانے کیلئے باقاعدہ سپیشل کارگو طیارہ بک کروایا گیا، صدر مملکت اسلامی جمہوریہ پاکستان عارف علوی کاون ہاتھی کو الوداع کہنے کیلئے چڑیا گھر پہنچے، خصوصی طیارہ میں 8 ٹیکنیکل افراد اور 2 ڈاکٹرز پرمشتمل 10 رکنی ٹیم کے ہمراہ کاون ہاتھی کو کمبوڈیا پہنچا دیا گیا ہے، کمبوڈیا پہنچنے پر امریکی سپر سٹار چیئر، کمبوڈیا کی نائب وزیر ماحولیات نیتھ پھسیکترا سمیت کئی اہم شخصیات نے کاون ہاتھی کا استقبال کیا، کاون کو پڑوسی صوبے اووڈ پہنچا دیا گیا ہے، اب کاون کا گھر 600 دیگر ہاتھیوں والا وائلڈ لائف کا محفوظ مقام ہو گا، 8 سال سے تنہائی کا شکار کاون اب کمبوڈیا کے جنگل میں اپنی نئی دوست ہتھنی کے ساتھ اٹھکیلیاں کر کے خوشی کا اظہار کر رہا ہے کہ وہ ہاتھیوں کے غول میں آ گیا ہے

۔ اقتدار میں آنے سے پہلے پی ٹی آئی کے کپتان گاہے بگاہے کہتے رہتے تھے کہ وہ بر سر اقتدار آ کر پاکستان میں سیر و سیاحت اور تفریح کے زیادہ سے زیادہ مواقع مہیا کریں گے اور ملک بھر میں سیر گاہیں اور تفریحی مقامات قائم کرنا ان کی ترجیح ہو گی ، دنیا بھر سے سیاح آئیں اور پاکستان کا زر مبادلہ بڑھے، لیکن کپتان جی اسلام آباد کے چڑیا گھر کا اکلوتا ہاتھی کاون پاکستان سے چلا گیا؟ کیا ہی بہتر ہوتا کہ ہاتھی کیلئے کسی دوست ملک سے ہتھنی منگوا لی جاتی تو ہاتھی کی مایوسی بھی دور ہو جاتی اور اسلام آباد کے چڑیا گھر کی رونقیں بھی برقرار رہتیں، عوام الناس بالخصوص بچے کاون سے دل بہلاتے۔ مگر حکومت پاکستان محکمہ وائلڈ لائف یا دیگر کسی ادارے نے ایسا نہ کیا، کپتان جی آخر یہ کیا ہو رہا ہے؟

آپ تو پاکستان کو ترقی یافتہ ملک بنانے کا دعوی کر رہے ہیں تو کیا حکومت پاکستان اس پوزیشن میں نہیں تھی کہ اسلام آباد کے چڑیا گھر میں موجود ہاتھی کاون کیلئے ایک ہتھنی منگوا لیتے؟ افسوس کئی ہفتے کاون ہاتھی کو کمبوڈیا بھجوانے کا شور اخبارات اور ٹی وی پر رہا، لیکن 22 کروڑ عوام اور پاکستان میں جانوروں کے حقوق کیلئے کام کرنے والی تنظیمیں سوئی رہیں، کسی نے کاون کو بھجوانے کی مخالفت نہ کی اور بالآخر کاون کمبوڈیا پہنچ گیا اور اسے اس کا جیون ساتھی بھی مل گیا، سو بات کہاں سے کہاں نکل گئی کپتان جی پاکستان میں لاکھوں افراد ایسے ہیں جو جانوروں جیسی کسمپرسی کی حالت میں زندگی گزار رہے ہیں، آپ کو ایسے لوگوں کیلئے کچھ کرنا ہے؟

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں