Site icon FS Media Network | Latest live Breaking News updates today in Urdu

“مسیحا کے منتظر مسیحا “

’’ایک اور عہد و پیما کا پیکر آسودہ خاک ‘‘

’’ایک اور عہد و پیما کا پیکر آسودہ خاک ‘‘

“مسیحا کے منتظر مسیحا “

سندھ، پنجاب، بلوچستان، کے پی کے بشمول گلگت بلتستان میں قائم میڈیکل کالجز خود مختار ادارہ کے طور پر کام کر رہے ہیں، طلبائ و طالبات کی عملی تربیت کیلئے متعلقہ اضلاع یا علاقوں میں ٹیچنگ سطح کے ہسپتال قائم ہیں، جن میں عوام کو بہتر سے بہتر طبی سہولیات فراہم کرنے کیلئے جدید ترین طبی آلات کے ساتھ زیر تربیت طلبائ و طالبات کیلئے پرسکون ماحول کا بھی خیال رکھا جاتا ہے،ان میں سے ہی بڑے نام ابھرتے ہیں

جو ملک کا نام دنیا میں روشن کرنے کا باعث بنتے ہیں، اسی طرح کا طریقہ کار پرائیویٹ میڈیکل کالجز کا ہے جن کے طلباء و طالبات ان میڈیکل کالجز سے منسلک بڑے پرائیویٹ ہسپتالوں میں تربیت حاصل کرتے ہیں، ایسے میڈیکل کالجز کے پڑھے اور ہسپتالوں کے تربیت یافتہ ڈاکٹر اپنی تعلیم مکمل کر کے اپنے علاقوں یا دوسرے اضلاع کے بڑے شہروں میں جا کر دکھی انسانیت کی خدمت کرتے ہیں، گزشتہ روز سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ نظر سے گزری جس نے نا صرف سوچنے پر مجبور کر دیا بلکہ کئی سوالات بھی ذہن میں ابھرنے لگے تو سوچا کہ آج اسی پر قلم کشائی کر دوں ، سینکڑوں پی جی آرز (زیر تربیت طلبائ و طالبات) کی لکھی متذکرہ پوسٹ جو کہ کھلے خط کی صورت میں سرگودھا میڈیکل کالج کی خاتون پرنسپل کے نام ہے کچھ یوں ہے:پرنسپل کے نام کھلا خط
میڈم آپ اس کالج کی پرنسپل ہیں۔ ہمارے اکیڈیمک امور کی ذمہ داری آپکے کندھوں پہ ہے۔۔۔۔ ہم پی جی آرز دنیا کا مشکل ترین امتحان پاس کرکے اور سالہا سال BHUs,RHCs کے دھکے کھانے کے بعد اپنا میرٹ بنا کے یہاں آئے ہیں۔ہمیں چار سال پہلے یہ یقین دہانی کروائی گئی تھی کہ(Provisional registeration) ہو چکی (Permanent Registration) بس ایک رسمی کاروائی ہے جو چند ماہ میں ہر صورت ہوجائے گی چنانچہ ہم نے اپنی consent دی اور ٹریننگ شروع کردی۔۔ آج۔۔۔ چار سال ہونے کو ہیں۔۔۔۔ ہماری ٹریننگ ختم ہونے کو ہے

۔۔پر۔۔ آج بھی۔۔۔ ہمیں۔۔۔۔۔اپنے مستقبل کا نہیں پتا۔۔۔ اس بار تو ہمارے رزلٹ تک روک لئے گئے ہیں۔۔۔۔آج ہم ایم ڈی ایم ایس کے سینکڑوں پی جیز رل رہے ہیں۔۔آپ نے ہماری ڈگری رجسٹریشن کروانی تھی۔۔ آپ نے ہمیں شناخت دلوانی تھی۔۔۔۔ہم آپکی ذمہ داری تھے۔۔۔ مگر آپ نے آج تک ہمارے لئے کچھ نہیں کیا ہے۔۔۔۔ہمارے مسائل پہ آپ بات تک کرنا گوارا نہیں کرتیں۔۔۔۔ہم سے بات کرنا تو دور کی بات۔۔۔ ہماری بات سننا تک گوارا نہیں کرتیں۔۔۔۔ہم نے بہت کوشش کی آپ سے ملنے کی۔۔۔پر آپ۔۔ سرگودھا میڈیکل کالج میں بنے اپنے محل نما آفس سے باہر تک نہیں نکلتیں۔اور جب ہم آپ سے بات کرنے محل نما آفس جائیں تو آپ گارڈز کو ایسے بلاتی ہیں جیسے ہم ڈاکٹر نہیں اشتہاری مجرم آئے ہوں۔۔۔۔آپکا بس چلے تو ہمیں ہتھکڑیاں لگوادیں

بلکہ شاید گولی ہی چلوادیں۔۔ہمیں آج تک آپکے آفس سے دھمکیوں،جھڑکیوں ، گالیوں اور طفل تسلیوں کے سوا کچھ نہیں ملا۔۔آفس میں اونچا بولنے اور چیخنے چلانے سے صرف اور صرف آپکے اندر کا خوف اور ذات کا کھوکھلا پن ظاہر ہوتا ہے۔۔۔۔ شاید اونچا اونچاچلا کر آپ اپنے ضمیر کی آواز کو دبانے کی ناکام کوشش کرتی ہوں۔۔ شایدکبھی کبھار ضمیر بھی آپکو جگانے کی ناکام کوشش کرتا ہو۔۔۔ شاید کبھی کبھار احساس ندامت بھی غالب آ جاتا ہو۔۔۔۔۔ شاید کبھی کبھار اپنے آپ کو سینکڑوں پی جی ٹرینیز کامجرم بھی گردانتی ہوں۔۔۔۔۔ شاید یہ جرائم آپکو سونے بھی نہ دیتے ہوں۔۔۔۔۔ پر پھر بھی۔۔۔ کبھی کبھار ہی سہی۔۔۔سکون کی گولیاں کھا کر ہی سہی۔۔۔۔آپکو۔۔۔۔نیند کیسے آجاتی ہے میڈم؟؟آپکو نیند کیسے آجاتی ہے میڈم؟؟
ذرائع کہتے ہیں کہ سرگودھا اور گجرات کے میڈیکل کالجز وہ کالجز ہیں جو یونیورسٹیز کے ماتحت کام کر رہے ہیں، 2006 میں جب سرگودھا میڈیکل کالج قائم کیا گیا تو اس کا اپنا ہسپتال نہیں تھا، جس کی وجہ سے سرگودھا میڈیکل کالج کے طلبائ و طالبات ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال میں تربیت حاصل کرنے لگے تو اسی ہسپتال کو گورنمنٹ ڈسٹرکٹ ٹیچنگ ہسپتال سرگودھا کا نام دے دیا گیا لیکن اس میں وہ سہولیات فراہم نہ کی گئیں

جو ٹیچنگ سطح کے ہسپتالوں میں ہوتی ہیں، 14 سال قبل سے ہسپتال ہذا میں ڈسٹرکٹ وارڈز کے سینئر ڈاکٹرزاور ٹیچنگ وارڈز کے پروفیسرز اور اسسٹنٹ پروفیسرز میں تنائو پایا جا رہا ہے، اور کئی بار ہسپتال میں ناخوشگوار واقعات رونما ہو چکے ہیں، عوامی سطح پر کئی بار احتجاج کیا جا چکا ہے کہ میڈیکل کالج کیلئے دوسرے شہروں کے میڈیکل کالجز کی طرح الگ سے ٹیچنگ ہسپتال قائم کیا جائے، پیپلز پارٹی کے دور میں میڈیکل کالج کیلئے 500 بیڈز کے ہسپتال کا اعلان بھی کیا گیا لیکن اسے عملی جامہ نہ پہنایا جا سکا اور یہ منصوبہ سیاست کی بھینٹ چڑھ گیا،

سینئرز میں تنائو کی وجہ سے میڈیکل کالج کے زیر تربیت طلباء و طالبات، پی جی آرز بھی دبائو اور مسائل کا شکار رہتے ہیں۔ اسی بنائ پر مستقل رجسٹریشن کے منتظر سینکڑوں مستقبل کے مسیحائوں جو قبل ازیں اپنے اس مطالبے کیلئے کئی بار شدید رد عمل کا اظہار بھی کر چکے ہیں نے درد بھرا یہ کھلا خط سرگودھا میڈیکل کالج کی پرنسپل اور حکومت وقت کے ذمہ داروں کے نام لکھا ہے۔
تو جناب کپتان آپ نے اقتدار میں آنے سے پہلے عوام کو طبی سہولیات کی فراہمی کیلئے ملک بھر میں بڑے بڑے ہسپتالوں کے قیام کے ساتھ ڈاکٹرز اور محکمہ صحت کے عملہ کیلئے

جدید سہولتوں کی فراہمی کے بلند و بانگ دعوے کیے تھے تو جناب کپتان آپ اب اقتدار میں ہیں، وزیر اعلی پنجاب عثمان بزدار بھی آپ ہی کی جماعت کے ہیں، وقت کا تقاضہ ہے کہ آپ مسیحا کا کردار ادا کرتے ہوئے ڈی ایچ کیو ہسپتال سرگودھا کے ان مسیحائوں سینکڑوں پی جی آرز جو چار سال تربیت حاصل کر کے آنسو بہار ہے ہیں سمیت دیگر سرکاری ہسپتالوں کے سینئر، جونیئر ڈاکٹرز کو عملی سہولیات فراہم کریں اور ان کے مسائل ترجیح بنیادوں پر حل کریں تو آپ کا غریب عوام کو طبی سہولیات کی فراہمی کا خواب پورا ہو جائے گا، اگر ایسا نہ کیا جا سکے تو پھر غریب مریض اسی طرح سسک سسک کر مرتے رہیں گے، جس طرح ماضی کی حکومتوں کے دور میں مرتے رہے ہیں۔

Exit mobile version