تبدیلی میں بڑی روکاوٹ مافیا ہے ! 86

ٹریک ون نہیں تو ٹریک ٹو مذاکرات!

ٹریک ون نہیں تو ٹریک ٹو مذاکرات!

تحریر:شاہد ندیم احمد
ملک کی سیاست پُراسراریت کے پردوں میں لپٹی ہوئی ہے اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ سیاستدانوں نے اپنے اصل چہروں پر مصنوعی چہروں کے خول چڑھا رکھے ہیں وہ اندر سے کچھ ہیں، یہ سیاسی قیادت حکومت اوراپوزیشن میں، سب ایک جیسے ہیں۔ یہ جب برسراقتدار ہوتے ہیں تو جمہوریت ، آزادی ٔاظہار کو اور عوام کے بنیادی حقوق کو اپنے جوتے کی نوک پر رکھتے ہیں، لیکن جب اقتدار سے بے دخل ہوجائیں تو یہی باتیں انہیں اچھی لگنے لگتی ہیں اورجمہوریت کے سب سے بڑے علمبردار بن جاتے ہیں، آزادی ٔاظہار اور میڈیا کی آزادی ان کا بہترین مشغلہ بن جاتے ہیں،

عوام کے بنیادی حقوق جانتے ہیں ،نہ اپنے دور اقتدار میں ان کا کیا حال کر رکھا جاتا ہے ،لیکن اقتدار سے محروم ہوتے ہی انہیںعوام کے حقوق بھی یاد آنے لگتے ہیں،انہیں عوام سے کوئی دلچسپی نہیں ، صرف اقتدار کی طلب ہے، ان کی کوشش ہوتی ہے کہ اقتدار کا ہُما کسی طرح ان کے سر پہ آ بیٹھے،اس لیے کچھ یہاں سراپہ احتجاج ہیں اور کچھ بیرون ملک بیٹھے ووٹ کو عزت دوکا بیانیہ بیچ رہے ہیں،یہ ایک طرف حکومت سے مذاکرات نہ کرنے کے دعوئے کرتے ہیںتو دوسری جانب اقتدار میں واپسی کے لیے مقتدرقوتوںکے ساتھ ٹریک ٹو مذاکرات کررہے ہیں۔
اِس وقت پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمن جمہوریت کے سب سے بڑے چمپئن بنے ہوئے ہیں،وہ ایک طرف حقیقی جمہوریت کی بحالی کے دعوئیدار ہیں

تو دوسری طرف قومی سلامتی کے اداروںکو للکارکے ساتھ پی ڈی ایم قیادین کو باور بھی کروارہے ہیں کہ انہیں مقتدر حلقوں کی جانب سے پیغام ملا ہے کہ وہ سیاسی معاملات میں مداخلت نہیں کریں گے،اس پیغام کا اثر ہے کہ مولانا کی طبیعت جلالی ہو گئی ہے اور اسلام آباد یا راولپنڈی لا نگ مارچ کی دھمکیاں دینے لگے ہیں،مو لانا کو پی ڈی ایم کی تقسیم کیلئے بیرونی اثر رسوخ کے استعمال کا بھی دھچکا لگا ہے، پیپلز پارٹی کی جانب سے بار بار اختیار کیا جانے والا موقف ایک طرف اور دوسری طرف نواز ،مولانا کے اتحاد کی وجہ سے اپوزیشن کی تحریک کو بڑا دھچکا لگنے کا اندیشہ ہے

اور حالات اس نہج کی طرف تیزی سے بڑھ رہے ہیں کہ جب اپوزیشن کا اتحاد غیر موثر ہو جائے گا۔پی ڈی ایم جتنا مرضی سیاسی اتحاد کی بات کرے،مگر اس میں شامل جماعتوں بالخصوص پیپلز پارٹی اور جے یو آئی (ف) کے درمیان عدم اعتماد بڑھ رہا ہے، پی ڈی ایم قائدین کو شک ہے کہ آصف زرداری نے نیا موقف اختیار کر لیا ہے ،کیونکہ انہیںمقتدر حلقوں کی جانب سے کچھ ٹھوس یقین دہانیاں کرائی گئی ہیں۔ آصف علی زرداری بڑے زیرک سیاستدان ہیں،اُن کا اسمبلیوں سے استعفیٰ کبھی آپشن نہیں رہا،کیو نکہ نون لیگ اور جے یو آئی (ف) کے برعکس پیپلز پارٹی کو سندھ حکومت سمیت بہت کچھ کی قربانی دینا پڑے گی اور یہ مسٹر زرداری کی رائے میں معمولی فائدے کیلئے بہت بڑی قیمت چکانے جیسا ہے،

یہی وجہ ہے کہ آصف علی زرداری پنجاب اور مرکز میں اسمبلیوں کے ذریعے تبدیلی کے ایجنڈے پر عمل کرنے پر زور دے رہے ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ اسمبلیوں سے مشترکہ استعفوں کی حامی جماعت مسلم لیگ (ن) جو بظاہر متحد نظر آتی ہے، لیکن اپنے اس طرز عمل کے معاملے میںتقسیم ہے، یہ لوگ عوام میں اپنے اختلافات کا اظہار نہیں کررہے ، لیکن پس پردہ بات چیت میں اصرار کرتے نظر آتے ہیں کہ مشترکہ استعفے منطقی سیاسی فیصلہ نہیں،اگر پیپلز پارٹی ساتھ دینے سے ہچکچاتی ہے تو مسلم لیگ (ن )کیلئے تباہ کن سیاسی فیصلہ ثابت ہوگا

۔مسلم لیگ (ن)قیادت کی ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے خلاف سخت موقف کی پالیسی نے پہلے ہی پارٹی کیلئے بہت مسائل پیدا کیے ہیںاور اب خواجہ آصف کی گرفتاری کے بعدمریم نواز کا کہناکہ دو اہم شخصیات نے خواجہ آصف سے کہا تھا کہ نواز شریف کا ساتھ چھوڑ دیں، ورنہ نتائج بھگتنے کیلئے تیار ہو جائیں،لیکن خواجہ آصف نے معنوی انداز سے مریم نوازکی کہی ہوئی بات کی نفی کرتے ہوئے اپنی گرفتاری کا ذمہ دار عمران خان کو قرار دیا ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے بیشتر رہنائوں کا کیال ہے کہ میاںنواز شریف اور مریم کی جانب سے اسٹیبلشمنٹ کی شخصیات کیخلاف سخت لب و لہجے سے عمران خان کی حکومت مضبوط ہوئی ہے۔
یہ امرواضح ہے کہ پی ڈی ایم باہمی اختلافات کا شکار ہو گئی ہے ،مولانا فضل الرحمٰن اتنے ہی پریشان نظر آتے ہیں، جتنا کہ میاں نواز شریف اور مر یم نواز دکھائی دے رہی ہیں ،کیو نکہ انہیں عمران خان کی حکومت جاتے نظر نہیں آرہی ہے ۔ مولانا اور نواز شریف اسٹیبلشمنٹ کو ہدف بنا کرکچھ بھی حاصل نہیں کرسکے ہیں،

اس کی وجہ سے انہیں نقصان اور عمران خان کو فائدہ ہوا ہے۔ پی ڈی ایم قیادت کا دعویٰ ہے کہ اپوزیشن تحریک سے حکومت گھبرا گئی ہے ،جبکہ پی ڈی ایم قیادت کے چہروں پر ہوائیاں اُڑی ہوئی ہیں۔اس حکومت مخالف تحریک سے قبل کہا جارہا تھا کہ اسٹیبلشمنٹ نے حکومت کی کارکردگی سے مایوس ہو کر اشارے دینا شروع کر دیے تھے کہ وہ خود کو سیاسی معاملات سے علیحدہ کر رہے ہیں،تاہم میاںنواز شریف کے اسٹیبلشمنٹ کے خلاف براہِ راست حملوں سے مقتدر حلقوں کے فیصلے تبدیل ہو ئے اور اب مولانا فضل الر حمن کا اسٹیبلشمنٹ کوصورتحال کا ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے لانگ مارچ کی دھمکی دینا،ایک بڑے انتشار کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔
حکومت اور اپوزیشن کو اپنے رویوں میں تبدیلی لانا ہو گی،ایک طرف اپوزیشن حکومت گرانے پر تلی ہوئی ہے تو دوسری طرف حکومت، اپوزیشن کوچور اور ڈاکو کے القابات سے نوازتے ہوئے بات چیت سے انکاری ہے۔سیاسی معاملات دو نوں جانب سے انتہائوں پر ہیںاور دونوں کو ہی کسی نہ کسی کی پشت پناہی حاصل ہے ،ایسی صورتحال سے تیسری قوت فائدہ اُٹھا سکتی ہے،جمہوریت کو زد پہنچنے کی صورت میں آج کے مخالفین پھر ایک پیج پر نظر آئیں گے،

اس تنا ظر میںچودھری شجاعت حسین درست کہتے ہیں کہ ایسے حالات میں حکومت اور اپوزیشن کوجنہیں لوگوں نے اپنے ووٹوں سے منتخب کر کے اسمبلی میں بھیجا ہے، اپنا حقیقی کردار اورفرض ادا کرناچاہئے، ملک کی سیاسی قیادت کودانستہ یا غیر دانستہ کسی کا االہ کار نہیں بننا چاہئے ۔ اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت پہل کرتے ہوئے اپوزیشن کو اعتماد میں لینے کی کوشش کرے، اگر ان کے کوئی جائز مطالبا ت ہیں جو ملک و قوم کے مفادات سے متصادم نہیں رکھتے تو انہیں تسلیم کرنے میں کوئی ہرج نہیں ہے۔حکومت اور اپوزیشن کے ما بین ٹریک ون یا ٹریک ٹو مذاکرات میں کا میابی ہی ملک کو سیاسی انتشار سے نکالنے کا باعث بن سکتی ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں