افواہیں
ام ہانی مانسہرہ
افواہ وہ جھوٹی بات جو بغیر کسی تصدیق کے آگے پھیلا دی جائے۔جس کے مستند ہونے کا کوئی ذریعہ کوئی منبع نہ ہو۔
وطن عزیز میں آجکل ہر طرف افواہوں کا بازار گرم ہے۔اس کی تازہ ترین مثال دو روز قبل ہونے والے بجلی کے سب سے بڑے اور طویل بریک ڈاون کے نتیجے میں جنم لینے والی نت نئی خبریں ہیں۔جنھوں نے آدھے گھنٹے سے بھی کم وقت میں لوگوں کے اندر خوف و ہراس اور سنسنی خیزی پھیلانا شروع کر دی تھی۔
اس بات سے تو سب اچھی طرح واقف ہیں کہ آجکل ہر خبر پلک جھپکتے میں یہاں سے وہاں پھیل جاتی ہے۔سو ملک بھر میں ہونے والے بجلی کے اس بریک ڈاون نے بھی لوگوں کو افواہیں پھیلانے کا ایک سنہری موقع فراہم کر دیا۔کوئی کہتا مارشل لاء لگنے والا ہے۔کوئی کہتا، پڑوسی ملک نے حملہ کر دیا۔کسی نے اس کا تعلق بلوچستان واقعے سے جوڑ دیا تو کوئی حکومت کے چلے جانے کی پیش گوئی کر رہا تھا۔غرض جتنے منہ اتنی باتیں۔۔!
سچ ابھی تسمے ہی باندھ رہا تھا اور جھوٹ ملک بھر میں انتشار برپا کر چکا تھا۔کسی شخص کے جھوٹا ہونے کے لیئے یہی بات کافی ہے کہ وہ غیر مصدقہ بات کو آگے پھیلا دے۔ذرا پل بھر کو ٹھہریئے اور سوچیئے کہ ہم کیا کر رہے ہیں؟کہیں ہم بھی تو ان افواہوں کا حصہ بن کر جھوٹے اور گناہگار تو نہیں ہو رہے۔؟؟
ہم اس معاشرے کے بگاڑ کا سبب بن رہے ہیں یا معاشرے کے سدھار میں اپنا کردار نبھا رہے ہیں؟؟ہمارے ملک میں لوگوں کی نفسیات بھی عجیب ہو چکی ہے۔جو پریشانی اور مصیبت کی باتوں کو تو بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں مگر خوشی کی باتوں سے صرف نظر کر لیتے ہیں۔یعنی کسی بھی معاملے کا منفی پہلو تو زور و شور سے دکھاتے پھریں گے مگر مثبت رخ نگاہوں سے یوں اوجھل کر دیں گے کہ کسی کی غلطی سے بھی نظر نہ پڑ سکے۔
خصوصا سوشل میڈیا، الیکٹرانک میڈیا اور پرنٹ میڈیا اس بارے میں نہایت غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔بطور مسلمان اور ایک اچھے شہری ہونے کے ناطے ہمیں اپنی ذمہ داریوں اور فرائض سے بخوبی آگاہ ہونا چاہیئے۔ہمارے لیئے یہ جاننا نہایت اہم اور ضروری ہے کہ ہم اپنے معاشرے، ملک اور قوم کی بھلائی کے لیئے کیا کچھ کر سکتے ہیں؟
یہ فرد واحد یا کسی ایک ادارے کی ذمہ داری اور فرض نہیں بلکہ بحیثیت مسلمان اور قوم بلکہ ایک اچھی اور منظم قوم یہ ذمہ داری ہم سب پر عائد ہوتی ہے کہ ہم اپنے ملک اور عوام کو کس طرح بدنظمی، انتشار، ماہوسی اور خوف و ہراس سے بچا سکتے ہیں۔ہمیں ان افواہوں کو روکنے کے لیئے اقدامات کرنا ہوں گے۔
ہمیں ہجوم نہیں بلکہ ایک مہذب قوم بننا ہے۔اچھے اور بہترین مسلمان بننا ہے۔اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے اصولوں پر چلنا ہے۔ملک کی ترقی اور خوشحالی میں اہم کردار ادا کرنا ہے۔یہ ملک جس مقصد کے لیئے بنایا گیا تھا، وہ مقصد پورا کرنا ہے۔اپنے حالات بدلنے کی خود ہمت اور کوشش کرنی ہے۔اللہ ہمارا حامی و ناصر ہو۔آمین
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو خیال جس کو خود اپنی حالت بدلنے کا۔۔!!