انہیں مثال نہیں بننا شاید 94

انہیں مثال نہیں بننا شاید

انہیں مثال نہیں بننا شاید

مظہر اقبال کھوکھر
(مظاہرقلم)
6 روز تک سربراہ مملکت کا انتظار کرنے والی ہزارہ برادری کی طرف سے اپنے پیاروں کی تدفین کے بعد وزیر اعظم کوئٹہ پہنچے اور لواحقین کو بہادر خان وویمن یونیورسٹی بلاوا کر ان سے اظہار تعزیت کے بعد اپنی کوئٹہ تاخیر سے آنے کی وضاحت کرتے ہو? کہا ” کسی بھی وزیر اعظم کا معاملہ مختلف ہوتا ہے جب ایک عام شہری تھا تو فورًا آپ کے پاس آگیا تھا لیکن اب میں وزیر اعظم ہوں جب آپ شرط لگائیں گے تو سب کے لیے یہ مثال بن جا? گی کل کوئی اور سانحہ بھی ہوسکتا ہے”
وزیر اعظم کی وضاحت اپنی جگہ مگر ایک لمحے کو سوچئے جس ماں کا لخت جگر خون میں تر ہو جن چھ بہنوں کا اکلوتا بھائی موت کی وادی میں اتر چکا ہو جس باپ کا آخری سہارا تابوت میں پڑا ہو جس کا سہاگ اجڑ چکا ہو جس معصوم بچی کے سر سے اس کے باپ کا سایہ چھین لیا گیا ہو اور جن کا آخری سہارا اب ریاست ہو اور وہ ریاست کے سربراہ سے ہمدردی کے دو بول سننا چاہتے ہوں وہ حاکم وقت کو اپنے اوپر ہونے والی ظلم و بربریت کی داستان سنا کر انصاف کی یقین دہانی کے دو بول سننا چاہتے ہوں اور انہیں کہہ دیا جا? کہ آپ مجھے بلیک میل نہیں کر سکتے یہ اس ماں، بہن،

بیٹی اور اس باپ کے لیے کتنا کربناک لمحہ ہوگا جسے صرف محسوس کیا جاسکتا ہے لکھا نہیں جاسکتا اس کی اذیت اور درد صرف وہی محسوس کر سکتا ہے جو اس درد سے دوچار ہوا ہو۔ مگر ہزارہ برادری کے درد کی کہانی کوئی نئی نہیں جب سے اس ملک میں دہشت گردی کے خلاف جنگ شروع ہوئی ہے ہزارہ برادری کے ہزاروں لوگوں کو خون میں نہلا دیا گیا 2001 سے لیکر 2021 تک ان بیس سالوں میں 80 سے زائد مرتبہ ہزارہ برادری کو ٹارگٹ کر کے دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا جن میں 1600 سے زائد معصوم ہزارہ شہید ہوچکے ہیں متعدد بار ہزارہ اسی طرح اپنے پیاروں کی لاشیں سڑکوں پر رکھ کر احتجاج کرتے رہے کئی کئی روز تک حکمرانوں اور ریاستی اداروں کا ضمیر جھنجھوڑنے کی کوشش کرتے رہے

اپنے تحفظ کی ضمانتیں مانگتے رہے اپنے جینے کا حق مانگتے رہے مگر ہر بار ایک نئی تسلی دی جاتی ہے ہر بار ایک نیا معائدہ ہوتا ہے اور ہر چند سال بعد ایک نئی قیامت برپا ہوجاتی ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستانی قوم نے دہشت گردی کے خلاف ایک طویل جنگ لڑی جس میں ہر مکتب فکر ہر طبقہ زندگی اور ہر ادارے نے بے بہا قربانیاں دیں ملک کو معاشی معاشرتی اور اقتصادی طور پر ناقابل تلافی نقصان اٹھانا پڑا اس کے باوجود پاکستانی قوم نے سیسہ پلائی دیوار بن کر حالات کا مقابلہ کیا یہ اسی ہمت حوصلے جذبے قربانیوں اور اتحاد و یکجہتی کا ثمر ہے کہ آج بہت حد تک دہشت گردی پر قابو پایا جا چکا ہے

مگر اس کے باوجود اس حقیقت کو فراموش نہیں کیا جاسکتا کہ نیشنل ایکشن پلان پر مکمل عمل درآمد نہ ہونے اور عملی طور پر شدت پسندوں ، انتہا پسندوں اور دہشت گردوں کے نظریاتی سہولت کاروں کے خلاف مکمل کارروائی نہ ہونے کی وجہ سے آج بھی دہشت گردی کی نرسریاں پروان چڑھ رہی ہیں اور ہر چند ماہ بعد دہشت گردی کا کوئی نا کوئی افسوسناک سانحہ رونما ہوجاتا ہے جس کا بنیادی مقصد وطن عزیز کو عدم استحکام سے دوچار کرنا ہوتا ہے بلوچستان کے علاقے مچھ میں دہشت گردی کی سفاکانہ کاروائی اسی سلسلے کی ایک خوفناک کڑی ہے جس سے نہ صرف پورے ملک میں خوف اور عدم تحفظ کی لہر نے جنم لیا بلکہ فرقہ واریت کو بھی ہوا ملی اس کی جتنی بھی مذمت کی جا? کم ہے۔
یقیناً کسی بھی سفاکانہ کاروائی کے خلاف مذمت ایک کمزور ترین احتجاج ہوتا ہے

لیکن اگر حکومت وقت اور ذمہ دار ریاستی ادارے بھی صرف مذمت تک محدود ہوجائیں تو پھر عام لوگوں میں احساس تحفظ دم توڑ جاتا ہے اور یہی کچھ سال ہا سال سے ہزارہ برادری کے ساتھ ہورہا ہے ہر سانحے کے بعد ایک نیا سانحہ جنم لیتا ہے مگر مستقل بنیادوں پر ان کے تحفظ کو یقینی نہیں بنایا جا سکا۔ رہی سہی کسر کو حکومت وقت کے رویے نے پورا کر دیا یقیناً ریاست ایک ماں کی حثیت رکھتی ہے اور سربراہ مملکت کا مقام حاصل ہوتا ہے جب بھی کسی پر کوئی مشکل وقت آتا ہے وہ اپنے ماں باپ کی طرف دیکھتا ہے اس لیے ہزارہ برادری کا وزیر اعظم کی کوئٹہ آمد کا مطالبہ اس ریاست کے شہری ہونے کی حیثیت سے نہ تو غیر قانونی تھا اور نہ ہی غیر اخلاقی مگر حکومتی رویہ انتہائی افسوسناک تھا جس کی وجہ سے پورے ملک میں اضطراب کی لہر نے جنم لیا اور کوئٹہ سے شروع ہونے والے دھرنے پورے ملک میں پھیل گئے۔
اس تلخ حقیقت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ ایک تسلسل کے ساتھ ہزارہ برادری کی ٹارگٹ کلنگ اور نسل کشی ریاست اور ریاستی اداروں کی کارکردگی پر بہت بڑا سوالیہ نشان ہے ہاں البتہ عدم کارکردگی کے لگے ان زخموں پر ہمدردی کا مرہم لگا کر ان کے درد کو کچھ حد تک کم کیا جا سکتا تھا مگر بروقت ایسا نہیں کیا جا سکا نہیں معلوم آخر حکومت وقت ایسی نئی مثال کیوں نہیں قائم کرنا چاہتی حالانکہ عوام نے تو تبدیلی والوں کو

مثال بننے کے لیے کامیاب کرایا تھا انہیں آنے والے لوگوں کے لیے بہت سی مثالیں قائم کرنا تھیں انہیں چوروں اور لٹیروں کو عبرت ناک سزائیں دے کر مثال قائم کرنا تھی کڑا احتساب کر کے مثال قائم کرنا تھی مافیاز کو عبرت کا نشان بنا کر مثال قائم کرنا تھی انہیں دو نہیں ایک پاکستان بنا کر، اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی کر کے، امیر اور غریب کی تفریق ختم کر کے مثال قائم کرنا تھی مگر افسوس انھوں نے بروقت انصاف کی امید رکھنے والوں کے پاس جاکر بروقت ہمدردی کے دو بول بولنے سے اس لیے انکار کر دیا کہ کہیں یہ آنے والوں کے لیے مثال نہ بن جا? شاید وہ تبدیلی اور مثالیں قائم کرنے کے تمام تر دعووں کے باوجود اپنے دور حکومت میں ایسی کوئی مثال قائم نہیں کرنا چاہتے جو آنے والے حکمرانوں کے لیے قابل تقلید مثال بن جا?۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں