تبدیلی میں بڑی روکاوٹ مافیا ہے !
تحریر:شاہد ندیم احمد
پا کستانی حکمرانوں نے اپنے دور اقتدار میں عوام کیلئے کبھی کچھ نہیں کیاہے،اپوزیشن جماعتوں کا آج بھی گٹھ جوڑ صرف قوم کی لوٹی ہوئی دولت بچانے کیلئے ہے اور اسی لئے اپوزیشن جماعتیں ذاتی مفادات کی سیاست کر رہی ہیں۔ اپوزیشن کے پاس کوئی ایجنڈا نہیں، بدعنوان عناصر کو صرف لوٹ مار سے اکٹھی کی گئی دولت بچانے کی فکر ہے۔ حکومت کرپٹ مافیا کو نشان عبرت بنانے کیلئے کو شاں ہے ،مگر کرپٹ مافیا کا گٹھ جوڑ حکومت کوٹف ٹائم دے رہا ہے، ملکی خزانے پر ہاتھ صاف کرنے والے عناصر کس منہ سے عوام کی بات کرتے ہیں، سابق ادوار میں اتنی زیادہ کرپشن نہ ہو ئی ہوتی تو آج ملک قرضوں میں نہ ڈوبا ہوتا، ملکی خزانہ لوٹنے والوں کو اپنے کئے کا حساب دینا ہوگا،مگر جب احتساب دینے کی بات آتی ہے
تو سب اکٹھے ہو کر انتقام کے نعرے لگانے لگتے ہیں،ایک طرف کرپٹ مافیا ہے تو دوسری جانب عوام تبدیلی کے خواہاں ہیں،اقتدار میں آنا اورحکومت قائم کرلینا اصل کمال نہیں، بلکہ اصل چیز حکومتی رٹ کا قیام ہے کہ حکومت کیسے اپنے کیے گئے فیصلوں پر عملدرآمد کرواتی ہے، لیکن افسوس آئے دن ایسے واقعات رونما ہوتے ہیں کہ جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ کیسے مختلف مافیاز اور مفاد پرستوں کے گروہ اثر انداز ہوتے ہیں کہ حکومت اپنے کیے گئے فیصلوں سے نہ صرف منحرف ہو جاتی ہے،بلکہ اس کے دفاع میں عجیب و غریب تاویلیں پیش کرکے ثابت کرنے کی کوشش کرتی ہے
کہ تمام فیصلے عوام کے وسیع تر مفاد میں کیے گئے ہیں۔اس حقیقت سے انکار نہیں کہ تحریک انصاف اقتدار میںآنے کے بعد سے کرپٹ نافیا کے خاتمے کیلئے کو شاں ہے ،لیکن اسٹیٹس کو،کی قوتیں اور پرانے سسٹم سے ناجائز فائدہ اٹھانے والے مافیا زتبدیلی لانے میں بڑی روکاوٹ بن رہے ہیں، پہلے پاناما لیکس اور اب براڈ شیٹ نے حکمران اشرافیہ کی منی لانڈرنگ اور کرپشن کو بے نقاب کردیا ہے۔ رشوت جڑوں تک دھنس چکی ہے، ملک میںاشرافیہ کا رہن سہن دیکھ کر نہیں لگتا کہ یہ غریب ملک ہے۔ اس ملک میں اشرافیہ دن بدن امیر اور ملک غریب ہو تا جارہاہے۔ وزیراعظم عمران خان تبدیلی اور کرپشن کے خاتمے کے نعرے پر تیسری سیاسی قوت کی حیثیت سے اقتدار میں آئے اور ڈھائی برس کے حکومتی تجربے سے بھی گزر چکے ہیں۔ اس تجربے کا تازہ حاصل ایک اور اعتراف ناکامی ہے، اس اعتراف ناکامی کا حاصل ان کے الفاظ میں یہ ہے کہ تبدیلی کے راستے میں مافیارکاوٹ ہے۔
وزیر اعظم کا مشاہدہ تو درست ہے کہ رشوت اور بدعنوانی کے نظام نے حکومت اور پاکستانی معاشرے کی جڑوں تک نفوذ کرلیا ہے، لیکن اس بات کی تشریح نہیں کی کہ پرانے سسٹم سے ناجائز فائدہ اُٹھانے والے مافیا کے عناصر ترکیبی کیا ہیں۔ گزشتہ تین عشروں میں بے شمار اسکینڈلز پاکستانی ذرائع ابلاغ نے منکشف کیے ہیں، انسداد بدعنوانی کے لیے طاقتور ادارے اور کمیشن بھی بنائے گئے، لیکن کسی بھی بدعنوان کا حقیقی معنوں میں احتساب نہیں ہوسکا ہے۔ عمران خان اور ان کی جماعت چوبیس سال تک ایک ہی نکتے یعنی تبدیلی اور کرپشن کے خاتمے کے لیے سیاسی تحریک چلاتی رہی ہیں اور اسی پر انتخابات میں کامیابی بھی حاصل ہوگئی، لیکن حکومتی تجربہ بتارہاہے کہ بدعنوان مافیا کمزور ہونے کے بجائے مزید طاقتور ہوگئے ہیں۔
اس میں شک نہیں کہ کرپت مافیاہی تبدیلی کے راستے میں اصل رکاوٹ ہے،لیکن یہ اس قدر طاقتور ہوگیا ہے کہ ریاستی اداروں کے احتساب سے بھی آزاد ہے، موجودہ حکومت اقتدار میں آئی تو اس کا خیال تھا کہ دو بڑی سیاسی جماعتوں کے قائدین کا احتساب ہوجائے تو بدعنوانی کا خاتمہ ہوجائے گا، لیکن سیاسی قیادتوں کا بھی احتساب ممکن نہیں ہوسکا ہے۔ ظاہر بات ہے کہ جب کسی معاشرے میں بلاامتیاز احتساب ممکن نہ ہو تو کسی کا بھی احتساب مشکل ہو جاتا ہے۔اس دور حکومت میں بھی احتساب صرف نعرے، سیاسی دنگل تک ہی محدود رہا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان کا کہنا بجا ہے کہ رشوت اور بدعنوانی پاکستانی معاشرے کی جڑوں میں بیٹھ گئی ہے، لیکن ان کے پاس بھی اسباب کا کوئی درست طریقہ نہیں اور نا ہی اس کا کوئی حل ہے۔ ملک کے سب سے بڑے طاقتور سیاسی منصب پر فائز ہونے کے باوجود مافیازکے سامنے بے بسی کا اظہار صورتِ حال کی سنگینی کی علامت ہے۔
تحریک انصاف حکومت کاکرپٹ مافیا کے سامنے بے بسی کا احساس غیر متوقع نہیں ہے ،انہوں نے سمجھ لیا تھا کہ محض عوامی مقبولیت بدعنوانوں کے احتساب کے لیے کافی ہے، یہ ناکامی اول دن سے ظاہر تھی ،کیو نکہ ان کے پاس ایسی ٹیم ہی موجود نہیں تھی جو پختہ سیرت و کردار پر مشتمل ہو، یہی وجہ ہے کہ بدعنوانی کے خلاف مہم چلانے کے باوجود ان کی ٹیم پر بھی بدعنوانی میں ملوث ہونے کے الزامات لگتے رہے ہیں اور انہوں نے اس سے انکار بھی نہیں کیا ہے۔ وزیراعظم کے اعتراف ناکامی کے باوجود یہ پاکستانی معاشرے، سماج اور نظام کی ضرورت ہے
کہ خرابیوں کا تجزیہ کیا جائے، اس حوالے سے سب سے اہم یہ ہے کہ ریاستی اداروں کے اہلکاروں کی سیرت و کردار کی تربیت کا کیا نظام ہے، سیاسی و غیر سیاسی قیادت کی اہلیت کا کیا معیار ہے، سیاسی جماعتیں جو عوام کی حمایت لے کر حکومت میں آتی ہیں، ان کے پاس قومی مسائل کا کیا تجزیہ ،کیا معیار ہے کہ جس کی بنا پر کسی فرد کو قیادت و حکومت کا حق اور اختیار حاصل ہوتا ہے، اگر ان سوالات کا جواب مل جائے تو کرپشن اور بدعنوانی کے اسباب اور علاج تلاش کیا جاسکتا ہے۔
ہمیں سمجھنا ہوگا کہ طاقت ور مافیا کس طریقے سے ہماری سیاست، جمہوریت، پارلیمنٹ، کابینہ، میڈیا اور بیوروکریسی کو اپنے تابع بناکر انہیں مفلوج کرتے ہیں،عام طور پرجب کہا جاتا ہے کہ یہاں فرد کے مقابلے میں اداروں کی حکمرانی ہونی چاہیے، تو اس کی وجہ بھی یہی ہے کہ ان طاقت ور طبقات کو قانون کے دائرہ کار میں لایا جائے، اور وہ قانون کی حکمرانی کے سامنے خود کو جوابدہی کے لیے پیش کریں، یہ کام محض ایک کمزور جمہوری نظام نہیںکرسکے گا،اس کے لیے جمہوری نظام کے ساتھ ساتھ ریاستی نظام کو بھی اپنا حصہ ڈالنا ہوگا، کیونکہ مسئلہ کسی سیاسی جماعت یا حکومت کا نہیں،
بلکہ مجموعی طور پر ریاست سے جڑے مفادات کا ہے۔ اگر ہم نے اس مفاداتی یا باہمی گٹھ جوڑ کے کھیل کو یہاں چیلنج نہ کیا تو پھر یہی لوگ ہوں گے جو ہماری سیاست اور جمہوریت میں بالادست ہوں گے اور ہم ان کے ہاتھوں یرغمال بھی بنے رہیں گے ۔حکومت اور عوام کو طاقتور مافیا کے شکنجے سے باہر نکلنا ہے ،معلوم نہیں کب گیس، بجلی ،آٹے اور چینی مافیاکے کرداروں کو احتساب کے شکنجے میں جکڑا جاتا ہے ،کیونکہ ماضی میں یہ طاقت ور طبقہ اپنے مضبوط نظام کے باعث احتساب کے کسی مضبوط شکنجے میں نہیں آسکا ہے، اور اب بھی یہ کام مشکل ہی نظر آتا ہے، ملک میں تبدیلی کے راستے کی بڑی روکاوٹ مافیا ہے اگر اِس بار بھی ہماری حکومتی، ریاستی ادارے اور قانون مافیا کے لوگوں کے سامنے اپنی کمزوری دکھاتے ہیں تو یہ ایک بڑے سانحہ سے کم نہیں ہوگا۔