پی ڈی ایم ڈرامے کا اختتام نہیں !
تحریر:شاہد ندیم احمد
پی ڈی ایم نے ایک منتخب حکومت کو اقتدار سے الگ کرنے کے تمام حربے استعمال کیے ،مگر عوام کو سڑکوں پر لانے، نہ حکومت گرانے میں کا میاب ہو سکے ہیں،اپوزیشن نے حکومت مخالف تحریک میں ناکامی کے بعد عوام کو حکومت سے بدظن کرنے کی مہم کا آغاز کیا ، مگر اس کے نتائج بھی حوصلہ افزانہیں ہیں۔پی ڈی ایم کاحکومت مخالف احتجاج مزحمت سے شروع ہو کر زبانی کلامی حد تک رہ گیا ہے،اپوزیشن قائدین کی جانب سے بیان بازی میں بڑی بڑی چھلانگیں لگائی جا رہی ہیں،مگر حکومت دن بدن کمزور ہونے کی بجائے مضبوط ہو رہی ہے،جبکہ وزیراعظم عمران خان کومسٹر یوٹرن کا خطاب د ینے والے خود بڑی بڑی قلابازیاں کھانے لگے ہیں ،پی ڈی ایم کے استعفے آئے نہ دھرنا دیا گیا، پہلے فیصلہ کیا گیا
کہ ضمنی انتخابات میں حصہ نہیں لیں گے پھر میدان سجا تو سب کے ساتھ میدان میں اُتر پڑے ہیں، ایسا ہی سینیٹ کے انتخابات کے بارے میں بھی ہو رہا ہے،وفاقی وزیر اطلاعات شبلی فراز کا کہنا بجا ہے کہ پی ڈی ایم ایک ایسا ڈرامہ ہے کہ جس کاکوئی اختتام نہیں،ان کی ناکامیوں کی فہرست طویل ہے، ایک دوسرے پر کرپشن کیس بنانے اور سڑکوں پر گھسیٹنے کے دعوئے کرنے والے مل کرسینیٹ کا الیکشن لڑیں گے اور اقتدار کا حصول بھی نہیں چھوڑیں گے، یہ سب لوگ لوٹ مار اور اقتدار کے لیے ایک ہیں۔اس میں شک نہیں کہ پی ڈی ایم کاعوامی نہیں ،ذاتی ایجنڈا ہے ،
مولانا فضل الرحمن خوش فہمی کا شکار ہو گئے تھے کہ بہت جلد موجودہ حکومت کو گرا دیں گے، اس لیے تحریک کے ابتدا میں ہی تینوں بڑی پارٹیوں کا موقف ایک ،مگر مفادات الگ تھے ، دونوں بڑی جماعتیں مولانا کو استعمال کررہی تھیں،انہوں نے مولانا کو آگے بڑھا کر اسٹیبلشمنٹ سے اپنے معاملات سیدھے کررہے ہیں، مولانا فضل الرحمن پی پی پی اور( ن) لیگ کی جس دیوار کے سائے میں بیٹھ کر موجودہ حکومت گرانے چلے تھے ،وہ دیوار پہلے کمزور ہوئی،پھر مولانا کے اوپر آ گر ی ہے اور اب مولانا وہی موقف اپنانے پر مجبور ہو گئے ہیں جو پیپلز پارٹی اور( ن) لیگ کا موقف ہے کہ سینیٹ کے انتخاب میں حصہ لیا جائے، اس کے بعد لانگ مارچ اور استعفوں کی بات کی جائے گی ۔
مولانا فضل الرحمان نے پی ڈی ایم اجلاس کے بعد26مارچ کو اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کا اعلان کر دیا ہے،مولا نا کا کہنا ہے کہ پی ڈی ایم سینٹ انتخابات مشترکہ طور پر لڑے گی،جبکہ سینٹ انتخابات سے متعلق حکومت کی مجوزہ آئینی ترمیم کو مسترد کردیا کہ جس پر پہلے اپوزیشن متفق تھی ،در اصل پی ڈی ایم اچھی طرح جانتے ہیں کہ سینٹ الیکشن میں مقابلہ سخت ہو گا ،اس لیے مشترکہ اُمیدوار لانے کے متعلق حکمت عملی اپنائی جارہی ہے،اس کے باوجود حکومت کی کا میابی یقینی ہے ،جہا ں تک لانگ مارچ کا تعلق ہے تو پی ڈی ایم کے جلسے ،جلوس ،مارچ پہلے کا میاب ہوئے ،نہ اب کامیاب ہوں گے ،کیو نکہ پی ڈی ایم کے جلسوں ،جلسوں میں عوام ہی نہیں، لیڈر ان بھی نعرہ لگاتے، تالیاں بجاتے ہوئے تھک چکے ہیں
،عوام سب کچھ اچھی طرح جان چکے ہیں ،وہ آزمائے ہوں کو دوبارہ آزمانے کیلئے تیار نہیں ہیں۔پی ڈی ایم نے اپنے بیانیہ میں ناکامی کے بعدنیا بیا نیہ متعارف کرانے کا فیصلہ کیا ہے ، اس وقت عوام کے لیے مہنگائی عذاب بنی ہوئی ہے، کوئی مسئلہ عوام کو سڑکوں پر لائے نہ لائے، البتہ مہنگائی عوام کو سڑکوں پر لاسکتی ہے۔اس لیے پی ڈی ایم قیادت نے اپنے نئے بیانیئے کو عوام کے ساتھ جوڑتتے ہو ئے کہا ہے کہ عوام کے شانہ بشانہ کھڑے ہوکر نہ صرف انہیں ہر مشکل سے نکالیں گے ،بلکہ۔عوام کیلئے ہر قربانی بھی دینے کو تیار ہیں،اپوزیشن کی قربانیوں سے عوام بہت اچھی طرح آگاہ ہیں
،انہوں نے تین بار اقتدار میں رہتے ہوئے عوام کیلئے کچھ نہیں کیا تو اب کیا کریں گے ،انہیں پہلے بھی اپنے مفاد عزیز تھے ،آج بھی خود کو بچانے اور اقتدار کے حصول میں کو شاں ہیں،عوام کو جیسے پہلے بے وقوف بناتے رہے ،اب بھی بنانا چاہتے ہیں،قریبی حلقوں کا خیال ہے کہ ہمارے سابقہ حکمران اشرافیہ نے آیندہ کی سوچتے ہوئے تاجروں سمیت زندگی کے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے حلقوں سے اتنے قریبی تعلقات استوار کر لیے ہیں
کہ انھیں اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرسکتی ہے۔پی ڈی ایم جتنا مرضی حکومت مخالف لانگ مارچ کو مہنگائی مارچ میں تبدیل کرنے کی کوشش کرلے عوام دوبارہ استعمال ہو نے کیلئے تیار نہیں ہیں، اس پس منظر میں بلاول بھٹو زرداری کی یہ رائے بہت مفید نظر آتی ہے کہ ادھر ادھر بھاگنے کے بجائے تحریک عدم اعتماد لانے پر توجہ دی جائے تو فتح کی امید قوی ہوجاتی ہے،لیکن اس ٹرک کی بتی کے پیچھے لگنے کیلئے مولانا تیار نہیں ہیں ،مولانا جلدی میں ہیں ،جبکہ جلدی کے کام ہمیشہ ہی خراب ہوتے ہیں، بہرحال پردے کے سامنے اور پس پردہ فائنل راؤنڈ کھیلا جا رہا ہے،
پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن ) بظاہر پی ڈی ایم میں رہتے ہوئے جہاں حکومت پر دبائو بڑھا رہے ہیں ،وہیںمقتدر قوتوں سے کچھ لو اور کچھ دو کا حصول بھی جاری ہے،اگر حکومت سینٹ الیکشن میں کامیاب ہو جاتی ہے تو نہ صرف اپنی مدت پوری کرے گی ،بلکہ آئندہ حکومت بنانے کے بھی امکانات روشن ہیں، اس طرح 70 سالہ لوٹ مار کا انت ہو جائے گا، اس کے برعکس اگر پی ٹی آئی کو اقتدارسے نکالاگیا تو آنے والے دنوں میں کرپٹ مافیا کا ایک بار پھر راج کرے گا، اب دیکھنا یہ ہے کہ بالادست طاقتیں، اس مسئلے کو کس طرح حل کرتی ہیں کہ انتشار بھی نہ پھیلے اور ملک سے لوٹ مار کا بدترین نظام بھی ختم ہو جائے ،نہیں تو پی ڈی ایم کا ڈرامہ یو نہی چلتا رہے گا۔