غیر سودی معیشت کے راستے پر ایک قدم !
تحریر:شاہد ندیم احمد
ہمارے معاشرے میںسود ایک ایسی سماجی برائی ہے کہ جس کی جتنی بھی برائی کی جائے،کم ہے، یہ ایک سفاک قاتل کی طرح غریبوں اور ضرورت مند لوگوں کو سفاکانہ طریقے سے قتل کرنے کے مترادف ہے،یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں بڑے واضح لفظوں میں فرمایا ہے کہ ائے ایمان والو! اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور جو سود باقی رہ گیا ہے، وہ چھوڑ دو، اگر تم سچ مچ ایمان والے ہو، اور ایسا نہیں کرتے تو اللہ تعالیٰ اوراس کے رسول سے لڑنے کے لئے تیار ہو جائو ’’گویا سود کھانے والوں کے لئے اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ جنگ لڑنے کے مترادف قرار دیا گیا ہے،
اللہ تعالیٰ کا حکم، ارشادِ نبی کریم کے ارشادات اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ سود لینا ایک ایسا گناہِ کبیرہ ہے کہ جس سے معاشرے کو پاک کرنا حکومتِ وقت کی ذمہ داری ہے ۔قومی اسمبلی نے سود کے ممانعت کا بِل منظور کرکے اپنی ایک ذمہ داری کو بہ احسنِ تقویم نبھایا ہے، اس بل کا عنوان ’’ممانعت برائے سود بابت نجی قرضہ جات‘‘ہے جو رائے شماری کے بعد قائم کمیٹی کو بھیج دیا گیا ہے۔ بل قائمہ کمیٹی میں غور وخوض کے بعد ایوان بالا یعنی سینیٹ میں منظوری کے لیے جائے گا ،جس کے بعد ہی یہ قانون بن سکے گا۔یہ امر قابل غور ہے کہ ہم مسلمان ہونے کے دعوئیدار ہیں ،مگر دین اسلام کے سنہری اصول اپنانے سے گریزا ں رہتے ہیں،ہم اچھی طرح جانتے ہیں
کہ اسلام میں سود کی سختی سے ممانعت ہے ،اس کے باوجود سود جیسی لعنت کی دلدل میں دھنستے جارہے ہیں، ہم زبانی کلامی سود ی نظام کے خاتمہ کی باتیں توبہت کرتے ہیں ،مگر جب عملی اقدام کی بات آتی ہے تومصلحت اور بیرونی دبائو کا شکار ہو جاتے ہیں،پاکستان میں معیشت کو سود سے پاک کرنے کی تحریک کئی عشروں سے جاری ہے،لیکن اس سمت میں ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھایا جاسکا ، سوائے اس کے کہ بینکوں میں غیر سودی قرضوں کی متبادل ایک کھڑکی کھول دی گئی ،اس بار بھی قومی اسمبلی میں منظور کردہ بل اسلابم آباد کی حد تک محدود ہے، مجوزہ بل کی منظوری دیتے ہوئے ہمارے قانون سازوں نے اس تضاد پر غور ہی نہیں کیا کہ ایک ہی عمل وفاقی دارالحکومت میں غیر قانونی اور باقی ملک میں قانونی ہوگا۔
دراصل مسئلہ یہ ہے کہ انسان دشمن سرمایہ دارانہ نظام معیشت کی رگوں میں سود خون کی طرح دوڑتا ہے، اگر حرمت سود کے حکم پر عمل ہوجائے تو سرمایہ دارانہ نظام کی جڑ کٹ جائے گی،یہ سود کی لعنت ہے کہ جس نے مہنگائی اور بے روزگاری کے عذاب میں مخلوق خدا کو جکڑ کررکھا ہوا ہے۔ ہمارے حکمراں اور نام نہاد قائدین اسلامی شریعت سے مسلسل کھلواڑ کررہے ہیں۔ ہمارے حکمران زبانی کلامی دعوے اور نمائشی اقدامات تو کرتے ہیں، لیکن حقیقی عملی اقدامات سے گریز کیا جاتا ہے ،یہ سودی نظام کے حامی صاف لفظوں میںکہنے کیلئے تیار نہیں ہیں کہ خدا وررسول کے حکم پر عمل کرنے کے لیے تیار نہیں ،کیو نکہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ ہمارے تمام مصائب کی جڑ سودی معیشت ہے، نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے
کہ وصول شدہ محصولات کا سب سے بڑا حصہ غیر ملکی سودی قرضوں کی مد میں چلا جاتا ہے، ہمارے نظام معیشت پر سودی قرضوں کی لعنت کا سبب اقوام مغرب کا عالمی تسلط ہے کہ جس نے عام آدمی کو بھی اقتصادی غلامی میں مبتلا کررکھا ہے۔یہ ایک قابل افسوس المیہ ہے کہ پوری دنیا میں سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف بڑی جدوجہد ناکام ہوگئی ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام کی اصل جڑ سود کی لعنت پر غور نہیں کیا گیا، ماہرین معیشت اس نتیجے پر تو پہنچ گئے کہ شرح سود میں اضافہ اقتصادی ظلم کا سب سے بڑا سبب ہے، لیکن اس کا ادارک
کرنے سے محروم رہے کہ فی نفسہ سود سب سے بڑی لعنت ہے کہ جس کی وجہ سے ایک محدود طبقے میں دولت کا ارتکاز ہوتا ہے اور غریب، غریب تر اور امیر سے امیر تر ہوتا چلا جاتاہے۔ یہی وجہ ہے کہ سود کی لعنت کو اسلامی شریعت نے اتنا بڑا جرم قرار دیا ہے کہ جس کے مطابق حرمت سود کے اعلان کے باوجود جو شخص سودی معاملات جاری رکھتا ہے، وہ اللہ اور اس کے رسولؐ کے خلاف اعلان جنگ کرتا ہے۔
اگر آج دیکھا جائے تو دنیا کی تمام حکومتیں عملی طور پر کائنات کے خالق ومالک کے خلاف برسر جنگ ہیں، اس حوالے سے مسلم ممالک کے قائدین کا جرم زیادہ سنگین ہے کہ وہ اسلام پر ایمان کا دعویٰ رکھتے ہیں اور اس دعوے کے مطابق قانون سازی کا حقیقی ماخذ قرآن وحدیث ہے، قیام پاکستان کے بعد پہلی دستور ساز اسمبلی نے بھی قرار داد مقاصد منظور کرکے اعلان کردیا تھا کہ اصل مقتدر اعلیٰ اللہ تعالیٰ کی ذات ہے،
قائداعظم محمد علی جناح نے اسٹیٹ بینک کے افسروں سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ سرمایہ دارانہ نظام کے مقابل معیشت کا قیام سب سے بڑا چیلنج ہے،لیکن ہمارے حکمرانوں نے اس فرض کی ادائیگی میں کوتاہی کی ہے، ہم ایسے دور میں زندگی بسر کررہے ہیں کہ جس کے بارے میں آقائے دو جہاں حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ ایک وقت ایسا آئے گاکہ جب ایک شخص بھی سود نہ کھانے والا نہیں ہوگا،آج ہم ایسے ہی دور میں زندہ ہیں۔
اس ظالمانہ سودی معیشت کے خلاف مزاحمت اور جدوجہد ہر اس شخص کا فرض ہے جو اقتصادی اور سیاسی ظلم کا خاتمہ چاہتا ہے ،لیکن سودی معیشت کے سرمایہ دارانہ جال کو توڑنا چند دنوں یا مہینوں کا کام نہیں ہے۔ اس کے لیے وسیع تر جدوجہدکرنا ہو گی۔ ایک وقت تھا کہ سودی معیشت کو اقتصادی ترقی کا لازمہ خیال کیا جاتا تھا، لیکن گزرتے وقت کے ساتھ دنیا پر واضح ہوتا جارہاہے کہ قوموں کے افلاس کا اصل سبب سرمایہ دارانہ سودی نظام ہے، اگر سود سے پاک معیشت عملی شکل میں دنیا کے سامنے آجائے تو معلوم ہوجائے گا کہ اسلامی نظام عالم انسان کے لیے کتنا بابرکت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلامی نظام حکومت کے قیام کے تصور کو اقوام مغرب نے بنیاد پرستی اور سیاسی اسلام قرار دے کر اسلام کے خلاف نفرت کی مہم چلارکھی ہے۔
اُمت مسلمہ اپنے قول وفعل کا تذاد دور کرکے جہاںا ہل مغرب کی اسلام مخالف سازشوں کا سد باب کرسکتی ہے ، وہیں ہمارے حکمران نیک نیتی سے سودی نظام کاخاتمہ کرکے ملک کو خوشحالی کی راہ پر گامزن کرسکتے ہیں ۔قومی اسمبلی میں پیش کردہ مجوزہ بل میں سود کی وصولی کو لعنت قرار دیا گیاہے، اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ ہماری اجتماعی زندگی کیسی لعنت میں گھری ہے، اس لعنت سے نجات کے لیے مرحلہ وار کوشش جاری رہنی چاہئے ،
تاہم اس کے نتائج اسی وقت نکلیں گے کہ جب ملک کی سیاسی وغیرسیاسی قیادت کی نیت درست ہوجائے، جبکہ اب تک کی تاریخ شاہد ہے کہ نفاذ شریعت کے حوالے سے حکومتی سطح پر مصنوعی نمائشی اقدامات ہی کیے جاتے رہے ہیں۔ وزیراعظم ریاست مدینہ کی مسلسل بات کرتے ہوئے اچھی طرح جان چکے ہیں کہ سودی قرضوں کی معیشت سب سے بڑی لعنت ہے،لیکن ملکی معیشت کی باگ ڈور ایسے ماہرین معاشیات کے حوالے ہے کہ جو غیر سودی معیشت کے راستے میں ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھائیں گے۔