جمہوریت راج میں عوام کا پامال!
تحریر:شاہد ندیم احمد
سینیٹ الیکشن کے شور شرابے میں ایسا لگتا تھا کہ شاید سینیٹ کے الیکشن کے بعد ہی ملک میں امن و سکون کی ہوائیں چل پڑیں گی ،ملک سے بیروزگاری اور مہنگائی کا خاتمہ ہو جائے گا ہرطرف امن وسکون کا موسم بہار شروع ہو جائے گا اور عوامی راج کا ڈنکا بج جائے گا، لیکن اس کے برعکس اپوزیشن کی جانب سے سینٹ انتخابی نتا ئج قبول نہ کیے جانے کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال سیاسی عدم استحکام اور انار کی طرف جاتی دکھائی دے رہی ہے ،جو ملک کے معروضی حالات میںکسی صورت سود مند نہیں ،حکومت کے اڈھائی سال اپوزیشن کے ساتھ رسہ کشی میں گزر گئے ،اگر اپوزیشن جماعتیں مارچ کے آخر میں اسلام آباد کی جانب لانگ مارچ کرتے ہیںاور بعدازاں نوبت دھرنے تک پہنچتی ہے تو حالات مزید دگر گوں ہو جائیں گے۔
اس میں شک نہیں کہ حکومت اور اپوزیشن کے باہمی تصادم کے باعث تمام مسائل پس پشت چلے گئے ہیں کہ جن سے نہ صرف پاکستان کا مستقبل جڑا ہے ،بلکہ تمام سیاسی جماعتوں کی خواہشاور ضرورت ہے،ملک کی تمام سیاسی جماعتوں نے میثاق جمہوریت میںووٹوں کی خریدوفروخت روکنے اور اوپن ووٹنگ کی ضرورت پر زور دیا تھا ،لیکن جب اس پر عمل در آمد کر نے کا موقع آیا تو محض مخاصمت کی وجہ سے حکومت سے تعاون کرنے سے گریز کیا گیا ،اپوزیشن کو اپنے ذاتی مفاد قومی مفاد سے زیادہ عزیز ہیں ،یہ سیاسی جماعتوں کے تضاد اور دوغلے پن کا نتیجہ ہے
کہ وطن عزیزمیں جمہوریت ثمرات دینے سے قاصر ہے ،جبکہ یہی جمہوریت دیگر ممالک میں ثمر آور ہے۔یہ درست ہے کہ موجودہ سیاسی نظام کی کوکھ سے ایسے مدبر عوامی لیڈرز کا حصول شاید دشوار نظر آرہا ہے کہ جو عوامی بھلائی، بہتری اور ان کے شاندار مستقبل کے بارے میں فکر مند ہوں، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ میدان سیاست میں آنے والے افراد کو اپنے سیاسی کردارسے آگاہی نہیں، سیاستدان تو عوامی فلاح و بہبود کے جذبے کے ساتھ میدان سیاست میں قدم رکھتے ہیں،
ان کی اولین ترجیح عوامی مسائل ہوتے ہیں،لیکن ہمارے ہاں سیاسی میدان میں ایسے قد آور سیاسی لیڈرز دور دور تک کہیں دکھائی نہیںدے رہے،ہمارے ہاں تو ایسے سیاستدانوں کی فوج ظفر موج دکھائی دیتی ہے جو میدان سیاست میں شاید اس جذبے اور شوق کے ساتھ قدم رکھتے ہیں کہ ان کا رتبہ بلند ہو جائے، ان کے مال و اسباب میں اضافہ ہو جائے، ان کی قدر و منزلت بڑھ جائے، عوام ان کے لیے فرش راہ ہوں اور وہ پر وٹوکول کی دھول اُڑاتی ہوئی گاڑیوں میں شان سے گزر جائیں ،اس سوچ کا نتیجہ ہے کہ ایک عام آدمی کے لیے ممکن ہی نہیں رہا کہ کاروبار مملکت میں شریک ان شہزادوں اور شاہزادیوں سے ملاقات کر سکے ،اپنا دکھ درد بتا سکے۔
ملک کو آزادی حاصل کیے ہوئے ۴۷سال گزر چکے ہیں، اتنے طویل عرصے میں ملک کی تعمیر و ترقی اپنی مثال آپ ہونی چاہیے تھی ،لیکن حکمرانوں نے اپنا بھرپور منافع بخش سیاسی سفر مکمل کرکے اپنی آنے والی نسلوں کو ملکی سیاست وانتظامی مشینری میں فعال کیا، لیکن ایک عام فرد کی معیارِ زندگی پہلے سے ابتر کردی ہے۔ملک کے عام آدمی کا مسئلہ سینیٹ الیکشن نہ لانگ مارچ ،دھرنا ہے، عام آدمی چاہتا ہے کہ اس کی زندگی کو آسان بنایا جائے ،اسے بڑھتی مہنگائی سے چھٹکارہ دلایا جائے ،ببے روز گاری سے نجات دلائی جائے، عوام الزام تراشی سے عاجز آگئے ہیں کہ ہمارے حکمرانوں نے ملک کے معاشی مسائل حل کرنے کے نام پر قرضوں کے انبار لگا دیے ہیں،گزشتہ حکومتیں بھی ملک کے معاشی حالات بہتر بنانے کے نام پر قر ضے لیتی رہیں اور موجودہ حکومت بھی قر ضے پر قرضہ لے رہی ہے ،مگر ملک کے معاشی حالات بہتر ہوئے نہ عوام کی مشکلات میں کوئی کمی آئی ہے،عوام کو آئے دن پٹرول، گیس اور بجلی کے نرخوں میں اضافے کے اعلانات ہی سو ننے کو ملتے ہیں۔
ستم طریفی یہ ہے کہ عوامی نمائندے کہلوانے والوں کو عوام کی کوئی پروہ نہیں ہے، عوام انہیں اس لیے منتخب نہیں کرتے کہ اپنی اولاد،اپنے اعزائو اقرب کی ترقی و خوشحالی کے راستے ہموار کریں اور خود بھی عیش و عشرت کی زندگی سے لطف اندوز ہو ں ،جبکہ غریب بے چارہ قرض کے بوجھ تلے دب کر انتہائی کسمپرسی کی زندگی گزارتا رہے ،یہ کیسے عوامی نمائندے ہیں کہ انہیں معلوم ہی نہیںکہ ان کے حلقہ انتخاب میں کتنے مجبور لاچار غریب ہیں ،کتنی بیوائیں ،کتنے یتیم ہیں، کتنے غربت کے ہاتھوںمنوں مٹی تلے جا سوئے ہیں،یہ ہمارے سیاستدانوں کے جاننے کی باتیں ہیں ،تاکہ عوامی مسائل حل کرنے کی جستجو میں دن و رات ایک کریں، لیکن یہاں تو معاملہ ہی الٹا ہے، عوام کی کوئی فکر نہیں ،فکر ہے تو اس بات کی کہ اقتدار کے حصول کو کیسے ممکن بنایا جائے ،اس کے لیے خواہ کچھ بھی کرنا پڑے کر گزرنا ہے ،مگر عوام کیلئے کچھ نہیں کرنا ہے۔
ملک کے قومی ادارے ایک عرصے سے عوام کے ساتھ سب کچھ ہوتا دیکھ رہے ہیں، آخر کب تک خاموش بیٹھے عوام کی بے بسی دیکھتے رہیں گے ،ملک سے سیاسی داو پیج کا یہ مکروہ کھیل کب ختم ہوگا اور عوام کو ایک ایسی حقیقی جمہوری حکومت کب ملے گی جو عوام کی حقیقی نمائندہ ہو اور جس میں عوام کا دکھ درد رکھنے والے لیڈر عوامی قیا دت کا بوجھ اٹھائے نظر آئیں، ورنہ سابقہ ادوار میں تو جتنی بھی حکومتیں ہمیں دکھائی دیتی ہیں، ان میں سب وہی لوگ دکھائی دیتے ہیں کہ جنہوں نے ملکی قرضوں کا بوجھ کم کرنے کے بجائے، ان میں بے حساب اضافہ کیا اور آج بھی موجودہ حکومت کا حصہ بن کر ملکی قرضوں کا بوجھ کم کرنے کی بجائے بڑھاہی رہے ہیں۔ہمارے ملک کے عوام جمہوریت کا راگ تو ضرور سنتے ہیں،
لیکن ہمیشہ ہی سے حقیقی عوامی جمہوریت سے دور ہیں اور عوام کو جمہوریت سے دور رکھنے والے کوئی اور نہیں، بلکہ وہی سیاسی پنڈت ہیں جو بات تو جمہوریت کی کرتے ہیں لیکن ان کے ا]پنے طرز عمل اور اپنی سیاسی جماعتوں میں دور دور تک کہیں جمہوریت دکھائی نہیں دیتی ہے ،یہ مخصوص خانوادے ہیں جو سیاسی انڈسٹری میں مال لگا کر اس منافع بخش صنعت سے کثیر منافع حاصل کرنے کی شب و روز محنت میں مصروف ہیں، اگر وہ ا قتدار میں ہیں تو ملک میں جمہوریت کا راج ہے اور اگر وہ اقتدار سے دور ہوتے ہیں تو ملک میں جمہوریت پامال ہے، اگر انہیں اور ان کے ساتھیوں کو سیاسی ایوانوں تک پہنچانے میں جائز اور ناجائز سارے ہی طریقہ کار بروئے کار لائے جائیں تو جمہوریت سرخرو ، ورنہ جمہوریت کو خطرہے، عوام اچھی طرح جان چکے ہیں کہ جمہور کتنے ہی ابتلا میں کیوں نہ ہو جمہوریت کے علمبرداروں کو جمہوریت اور عوام کی کوئی پروا نہیں ،یہ سب جا نتے ہوئے بھی عوام کی نظریں حکومت اور اپوزیشن دونوںپر لگی ہیں کہ میدان سیاست کے یہ آزمودہ کار قومی ترقی میں کیا کردار ادا کرتے ہیں۔ ۔