غیر فطری اتحاد کا فطری انجام !
تحریر:شاہد ندیم احمد
سیاست میں اتحاد بنتے اور ٹوٹتے رہتے ہیں، اپوزیشن جماعتوںکے اتحاد کے بارے میں بھی کہا جارہا تھا کہ یہ غیرفطری اتحاد بہت جلدفطری انجام کو پہنچ جائے گا، اپوزیشن اتحاد پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم پر خود کو چھ ماہ تک متحد رکھنے میں کا میاب رہا ،مگر اب اسمبلیوں سے استعفیٰ کے مسئلے پر بحران کا شکار نظر آنے لگاہے ،سینیٹ کے انتخابات مکمل ہونے کے بعد حکومت کے خلاف جاری تحریک کے اگلے مرحلے کے بارے میں پی ڈی ایم کا سربراہ اجلاس بے نتیجہ ہوگیا، پی ڈی ایم کے سربراہ اجلاس میں بذریعہ ویڈیو لنک پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف زرداری نے جارحانہ خطاب کرتے ہوئے
لانگ مارچ کے ساتھ اسمبلیوں کے استعفے کی تجویز کو ویٹو کردیاہے۔ پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے پیپلز پارٹی کی قیادت پر غیر جمہوری طرزِ عمل کا الزام عائد کیا اور کہا کہ ساری جماعتیں استعفوں کے حق میں ہیں،جبکہ پیپلز پارٹی پی ڈی ایم کے سربراہوں کے اکثریتی فیصلے کو ماننے سے گریز کررہی ہے۔پی ڈی ایم اجلاس میں آصف علی زرداری کا کہنا تھا کہ اسمبلیوں سے استعفیٰ دینے ہیں اور حکومت کے خلاف جنگ کا آغاز کرنا ہے تو میاں نواز شریف کو وطن واپس آنا ہو گا،انہیں گرفتاری سے نہیں ڈرنا چاہیے،اس پر مریم نواز نے کہا کہ میرے والد کی زندگی کی گارنٹی کون دے گا؟ اس کا جواب آصف زرداری نے تو نہیں دیا، البتہ وزیرداخلہ شیخ رشید احمد نے کہا ہے کہ زندگی کی گارنٹی تو اللہ کے پاس ہے ،
میاں نواز شریف واپس آئیں اور مقدمات کا سامنا کریں، اُن کے ساتھ مکمل انصاف ہو گا۔یہ امر واضح ہے کہ پی ڈی ایم اجلاس میں لانگ مارچ کے انتظامات کو حتمی شکل دینے کے ساتھ استعفوں کا فیصلہ بھی کرناچاہتی تھی ، تاہم پیپلزپارٹی استعفوں کے معاملے میں دیگر پارٹیوں کی طرح شروع دن سے پرجوش نہیں رہی ہے، بلاول بھٹو زرداری کی طرف سے بار ہا کہا گیا کہ استعفے ایٹم بم ہیں، انہیں آخری آپشن کے طور پر لیا جائے،مگر مولانا فضل الرحمن اور مریم نواز ہر صورت استعفے دینے پر مصر تھے۔ مریم نواز پیپلزپارٹی قیادت کو استعفے دینے پر قائل کرنیکے حوالے سے پر اُمید تھیں،
تاہم اجلاس کے دوران آصف علی زرداری کے ویڈیو خطاب کے دوران میاں نوازشریف کے وطن واپسی کے مطالبے سے ماحول میں اس قدر تنائو آیا کہ لانگ مارچ کے حوالے سے مشاورت اور استعفوں کا معاملہ پس منظر میں چلا گیا،اگر دیکھا جائے تو آصف زرداری کی یہ حجت عذر لنگ سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتی کہ میاں نواز شریف وطن واپس آجائیں تو ہم استعفے ان کے ہاتھ میں دیں گے اور مل کر جیل جائیں گے۔ اس پر مریم نواز کا مؤقف برحق ہے کہ پاکستان کو لیڈروں کی لاشوں کی بجائے زندہ قیادت چاہئے، پیپلز پارٹی سے زیادہ اس بات کا ادراک کسی دوسری جماعت کو نہیں ہوسکتا کہ انتقامی سیاست کے ماحول میں کوئی لیڈر ملک سے باہر رہ کر زیادہ بہتر طریقے سے کسی جمہوری جد و جہد کی رہنمائی کرسکتا ہے۔ یہ قیاس کرنا محال ہے کہ نواز شریف لندن سے واپس آکر کوٹ لکھپت جیل چلے جائیں تو اس اقدام سے کیوں کر ملک میں جمہوریت بحال ہوجائے گی۔
پاکستان جمہوری تحریک کا تو آغاز ہی بظاہر ’ووٹ کو عزت دو‘ کے نعرے سے ہؤا تھا، لیکن دیکھتے ہی دیکھتے یہ تحریک اصولی لڑائی کی بجائے سیاسی ہتھکنڈوں کے کرتب دکھانے کا پلیٹ فارم بن گئی اور ایسا لگنے لگا کہ اس کا مقصد موجودہ حکومت گرانا اور خود اقتدار تک پہنچنے کا راستہ ہموار کرنا ہے، کوئی بھی تحریک جب کسی سیاسی اصول کی بجائے، ایک خاص مقصد کے حصول کی شکل اختیار کرنے لگے تو ناکامی ہی اس کا مقدر ہوتی ہے۔ اپوزیشن قیادت کو پاکستان جمہوری تحریک کے پلیٹ فارم سے احتجاج کا آغاز کرنے سے پہلے طے کرنا چاہئے تھا کہ وہ کون سے مقاصد حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ محض 6 ماہ پہلے قائم ہونے والا اپوزیشن اتحاد، اس وقت شدید بحران اور فکری انتشار کا شکار نظر آتاہے۔ پی ڈی ایم میں جب تک ووٹ کی عزت اور سیاسی معاملات میں اسٹبلشمنٹ کی مداخلت کے اصولوں پر کوئی اتفاق رائے
پیدا نہیں ہوتا، مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی مل کر کوئی سیاسی جد و جہد نہیں کرسکیں گے،اگرمحض تعاون کے ڈھونگ میں سب سیاسی قوتیں اپنا اپنا ہدف حاصل کرنے کی تگ و دو کریں گی تو جمہوری بالادستی کے اصول کامیاب نہیں ہوسکتے ہیں۔
پی ڈی ایم جماعتوں کے مابین پہلے بھی ایک دوسرے پر قابل رشک اعتماد مفقود رہا اور اب اختلافات کی نوعیت شدت اختیار کر گئی ہے ،مولانا کے درینہ ساتھی حافظ حسین احمد کا کہنا بجا ہے کہ پی ڈی ایم قیادت اپنے مفادات کے تابع ہے ،یہ غیر فطری اتحاد فطری انجام کی جانب گامزن ہے، تاہم پی ڈی ایم جتنے بھی اختلافات کا شکار تھی،
اس کی طرف سے حکومت پر ایک دبائو ضرور تھا، اس کے جلسے جلوسوں میں مہنگائی اور بیروزگاری کے ستائے لوگ بھی شامل ہو رہے تھے۔ پی ڈی ایم کی طرف سے مہنگائی کو سرفہرست رکھ کر حکومت کیخلاف تحریک جاری رکھی جاتی تو اس کے خاطر خواہ نتائج سامنے آسکتے تھے، اس اتحاد نے ایک طرف مہنگائی اور بیروزگاری جیسے مسائل کو فوکس نہیں کیا تودوسرے طرف سے پاک فوج کیخلاف ہر زہ سرائی کی جاتی رہی ،
جسے عوامی حلقوں نے مسترد کردیا ہے۔ پی ڈی ایم کے اندرونی اختلافات میں حکومتی حلقوں کیلئے اطمینان کا پہلو ضرور موجود ہے، مگر اس کا ہرگز مطلب نہیںلیا جانا چاہئے کہ حکومت اپوزیشن کے کمزور پڑنے پر عوامی مسائل کے حل اور ان کو ریلیف دینے سے صرف نظر کرنے لگے، حکومت کو پہلے سے بھی زیادہ عوامی مسائل پر توجہ دینے کی ضرورت ہے، تاکہ کل کلاں کو اپوزیشن اپنے مفادات کے پیش نظر دوبارہ متحد ہو کرمد مقابل آئے تو عوام کی حمایت حکومت کو حاصل رہنی چاہئے۔