انجام بھی رسوائی، آغاز بھی رسوائی 144

انجام بھی رسوائی، آغاز بھی رسوائی

انجام بھی رسوائی، آغاز بھی رسوائی

شکل و صورت ،لباس اور گفتگو کے اندازسے وہ ایک بڑے گھرانے کی خاتون لگتی تھی۔۔اس کے ساتھ اٹھارہ ،بیس سال کی ایک لڑکی بھی ماں بیٹی دونوں نے قیمتی چادریں اوڑھ رکھی تھیں چہروںپر خوف ،ندامت اور سراسیمگی صاف ظاہر تھی۔۔۔وہ اس وقت گوجرانوالہ کی تحصیل نوشہرہ ورکاں کے نجی میٹرنٹی ہوم میں لیڈی ڈاکٹرکے کمرے میں موجود تھے خاتون کبھی سینے میں امڈتے طوفان کو روکنے کی کوشش کرتی تو آنکھوں سے بے اختیار آنسو بہنے لگتے۔وہ اپنے پلوسے صاف کرتی اور کبھی غصہ سے بیٹی کی طرف دیکھتی جو آٹھ ماہ کی حاملہ تھی ۔۔اس نے ایک بار پھر رحم طلب اور امید بھری نگاہوںسے لیڈی ڈاکٹرکی طرف دیکھا۔۔۔ لیڈی ڈاکٹرنے کہا بی بی!Sorry میں یہ نہیں کر سکتی میں تنگ آگئی

ہوںاس قتل ِ عام سے۔۔۔ خاتون نے اینے دونوں ہاتھ لیڈی ڈاکٹرکے آگے جوڑتے ہوئے کہا اگر اس کے پاپا کو پتہ چل گیا تووہ اسے قتل کرکے مجھے طلاق دیدے گے ۔خدارا ! ڈاکٹرمیرا گھرتباہ ہونے سے بچالو تم میری آخری امیدہو۔ یہ کہتے ہوئے وہ اس کے قدموں میں بیٹھ گئی۔ نوجوان لڑکی ۔ کا رنگ بھی پیلا ہونے لگا خاتون نے اس کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا اس کے پاپا ایک ہفتہ تک لندن سے آنے والے ہیں۔’’اچھا کچھ کرتی ہوں۔۔درمیانی عمر کی لیڈی ڈاکٹر نے خاتون کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔ اسے یوںلگا جیسے سینے سے ٹنوں بوجھ ہٹ گیا ہو ۔۔۔

او تھینکس اسی اثناء میں۔۔گھنٹی کی آواز سن کر نجی میٹرنٹی ہوم میںکام کرنے والی رضیہ الیاس ( نام تبدیل کردیا گیاہے) نرس کمرے میں داخل ہوئی۔۔ لیڈی ڈاکٹرنے ایک طرف لے جاکر اسے معاملہ کی نزاکت سے آگاہ کیا تووہ کہنے لگی’’ میںنے نوزائیدہ بچوںکو قتل کرنا چھوڑ دیاہے کسی کے گناہوںکا بوجھ میں کیوں اٹھائوں؟یہ کام ان کی ماں کیوں نہیں کرتی۔۔۔ڈاکٹر صاحبہ آپ نے تو خود ایسے کام نہ کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔۔اس نے بے بسی سے جواب دیا۔۔بس میں نے ان سے وعدہ کرلیاہے۔۔۔لیڈی ڈاکٹر نے نظریں چراتے ہوئے کہا ان پر ترس آگیا ہے۔۔اب آپ تصورکی آنکھ سے دیکھئے ایک بچہ ابھی پیداہی ہواہے کسی کو اسے نہلانے،اٹھانے یا پیار کرنے کی فکرہے نہ ضرورت۔۔جسم پر ابھی الائشیںبھی موجودہیں،

اسے دیکھ کر کسی کو مطلق خوشی نہیں ہوئی کوئی اسے پیار یا نفرت سے اٹھا بھی نہیں رہا۔ فطرت کے مطابق ماں کے سینے میں دودوھ بھی موجزن ہورہاہے روتے معصوم کی چیخیں ماں کے دل کو چیررہی ہیں لیکن وہ گم سم ہے ۔۔ایک خوف، بدنامی اور رسوائی کے ڈرکے باوجود ماں کی آنکھیں آنسوئوںسے ترہیں نانی ،نرس یا پھرماں کے انگوٹھے کا ہلکا سا دبائو۔دنیا میں آنے والے کی شہہ رگ دباکرتمام رشتے ناطوں اور زندگی سے محروم کردیتاہے ۔
OOOلاہور شہر کی ایک بارونق آبادی کے چوک میں کوڑے کرکٹ کے ڈھیرپر کئی کتے ایک دوسرے پر غرارہے تھے۔کچھ بلیاں بھی یہ تماشا دیکھ رہی ہیں لیکن آگے بڑھنے کی جرأت نہیں کررہی ہیں صبح سویرے ایک بزرگ مسجد میں فجر پڑھنے کیلئے جاتے جاتے یہ شور شرابہ سن کررک گئے کتوںکو پتھر روڑے مارمارکر بھگایا ایک اور نمازی بھی ان کے قریب آکرٹھہرگیا دونوںنے مل جل کر صورت ِ حال کا جائزہ لیا تو معلوم ہوا ایک نومولود بچے کی ادھ کھائی نعش بکھری پڑی ہے کسی بدچلن نے اپنا گناہ چھپانے کیلئے معصوم کو کوڑے کرکٹ کے ڈھیرمیں پھینک دیا تھا۔ نیم تاریکی میں اس کی حالت دیکھ کردونوں استغفراللہ پڑھنے لگے انہوںنے آتے جاتے چند لوگوںکو اکٹھا کرکے نومولود بچے کی نعش کی باقیات کو اکھٹا کرکے قریبی قبرستان لے کر چلے گئے ان میں ایک کہنے لگا چندماہ قبل بھی یہاں سے ایک نوزائیدہ بچی کی ایسی ہی لاش ملی تھی
کراچی کے ایک پوش علاقے میں ایک عورت نے اپنا گناہ چھپانے کیلئے مسجدکے باہر نوزائیدہ بچہ رکھ دیا غالباً اس کا خیال ہوگا کہ کوئی درددل رکھنے والا اس کو پال لے گا لیکن مولوی صاحب نے اسے گناہ کی پوٹ قراردے کر اس سے جینے کا حق چھین لیا لہذا مولوی موصوف کے حکم پر نوزائیدہ بچے کو پتھر مارمارکر ہلاک کردیا گیا کسی نے اس معصوم پر ترس تک نہ کھایا ۔گذشتہ سال 1100سے زائدنوزائیدہ بچوںکو قتل کردیا گیا یا پھرانہیں کوڑے کرکٹ کے ڈھیرپر پھینک دیا گیایہ اعدادو شمار پاکستان کے چند اہم شہروںسے جمع کئے گئے ہیں

بھارت میں ایسے اعدادوشمار ہوشربا ہیں انڈین ٹی وی اخبارات ایسے واقعات سے بھرے پڑے ہیں سوشل ورکرز اور سماجی تنظیمیں پریشان ہیں کہ ہمارے معاشرے میں یہ کیاہورہاہے ایک محتاط اندازہ یہ ہے کہ شہروںکی نسبتاً دیہی علاقوںمیں ایسے واقعات کی بھر مارہے ایدھی فائونڈیشن کرا چی کے منیجر انورکاظمی کا کہناہے ہمارے چاروں اطراف ایسی المناک کہانیاں بکھری پڑی ہیں وہ کہتے ہیں’’ میں چند واقعات بھلانا بھی چاہوںتو نہیں بھلا سکتا ایک بچے کی عمر صرف 6دن تھی کسی سنگدل نے اس کو زندہ جلاکر مارڈالا۔۔ہمیں کوڑے کرکٹ کے ڈھیروںسے نوزائیدہ بچوںکی ایسی بھی لاشیں ملی ہیں جن کو پھانسی دی گئی تھی اور معصوم بچوںکی ایسی لاشیں بھی جن کوکتے بلوںنے کھالیا تھا ان کی باقیات دیکھ کر رونگٹے کھڑے ہو جاتے تھے۔
OOOپاکستان،بھارت، بنگلہ دیش اور جنوبی ایشیاء کے بیشترممالک میں اسقاطِ حمل قانوناً جرم ہے،ڈاکٹروںکو صرف اس صورت میں اجازت ہے جب ماں کی زندگی کو خطرہ لاحق ہو ان کے قوانین کے مطابق زندہ بچے کے اسقاط ِ حمل یا قتل کی سزاعمر قیدہے لیکن ڈاکٹریا دائی کی ملی بھگت سے یہ کام دھڑلے سے کیا جارہاہے اور کوئی پوچھنے والا نہیں لاہورکے ٹمپل روڈپر درجنوں کلینک گناہ کے یہی کاروبار کیلئے مشہور ہیں بلکہ شنیدہے ہرملک کے ہر چھوٹے بڑے شہر میں متعدد نجی میٹرنٹی ہوم اسقاطِ حمل کے لئے مخصوص ہیں قانون نافذ کرنے والے اداروںکو اس بارے بہتر جانتے ہوں گے ۔
OOOاسقاطِ حمل یا معصوم بچوں کا قتل ِ عام۔۔اس سنگین مسئلہ بارے میں کوئی بھی شوق سے بات کرنا پسندنہیں کرتاڈاکٹر،نہ مذہبی رہنما نہ سماجی ادارے۔۔کوئی NGOنہ متاثرین ۔۔۔اسقاطِ حمل کا شکار مردہ بچے تو ویسے ہی نہیں بول سکتے ہاں البتہ ایدھی فائونڈیشن سمیت کچھ سماجی تنظیموں نے معاشرہ کو ترغیب دی ہے کہ وہ ایسے بچوں کو قتل کرنے کی بجائے مخصوص’’ پالنے‘‘ ڈال جائیں ہم خود انہیں پال لیں گے لیکن اس کی بجائے بے راہروی کا شکار اسقاطِ حمل کو جان چھڑانے کا طریقہ بہتر خیال کرتے ہیں۔
OOOآج کی سب سے بڑی حقیقت یہ ہے کہ ’’اسلامی جمہوریہ پاکستان ــ‘‘ میں ہی نہیں بھارت ،بنگلہ دیش،افریقی ممالک پر ہی موقوف نہیں دنیا کے نام نہاد مہذب معاشروں میں بھی ہر سال لاکھوں’’ ناجائز‘‘ نو مولود بچوںکوخفیہ طورپر قتل کردیا جاتاہے ایک فی صد کی بھی تدفین نہیں کی جاتی بیشتر غلیظ جانوروں کی خوراک بن جاتے ہیں دنیا کے قدامت پسند ملکوں میں یہ گناہ چھپائے جاتے ہیں جس میں مذہبی نقطہ ٔ نظر،اخلاقی اقدار اور معاشرتی پابندیوںکی بناء پر’’ بن بیاہی ماںــ‘‘کا کوئی تصور نہیں شادی سے پہلے بچوںکی پیدائش کی سخت مذمت کی جاتی ہے

اور اسے خاندان کی انتہائی بے عزتی سمجھا جاتاہے اسلام نے زنابالجبر یا زنا بالرضا دونوں کوگناہ قرار دیاہے جس کے مرتکب افراد کو سنگسارکرنے کا حکم دیا گیاہے یعنی بدکاری کے جرم میں سزائے موت تک سزادی جا سکتی ہے ایک مشرقی معاشرہ ہونے کے باوجود اس ’’جرم ‘‘میں مسلسل اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے ۔آج ہمارے معاشرے میں لوگ پیسے کمانے کے چکر میں اپنے گھر اور گھر والوںسے لاپرواہ ہوگئے ہیں بے ہنگم آزادی، موبائل فون،انٹرنیٹ اور کیبل سسٹم میں سارا دن گھرگھر ٹی وی پر چلنے والی لچرفلموںنے خواتین و مردکو انتہائی آزادخیال بنا دیاہے ۔

جبکہ یورپین ممالک میں تو اسقاط ِ حمل کی اجازت دے دی گئی ہے مغربی ملکوںمیں اسے گناہ نہیں سمجھا جاتا ان کے دیکھا دیکی زیادہ تر نوجوان نسل نے بے حیائی کو محبت سمجھ لیاہے اب تو گھر والوںکو علم بھی نہیںہوتا لڑکیاں اپنے بوائے فرینڈ بنا لیتی ہیں اور’’تعلقات‘‘ بھی استوارکرلیتی ہیں اہلخانہ کو اس وقت ہوش آتی ہے جب لڑکیاں حاملہ ہوجاتی ہیں اور لڑکے رفو چکر۔۔خدارا !سب ہوش کے ناخن لیں اپنے گھراور گھروالوںکی طرف خصوصی توجہ دینے سے حالات کچھ نہ کچھ بہترہو سکتے ہیں خصوصاً والدین اپنی بچے ،بچیوں سے دوستی کرلیں ۔۔ اس بات پر غور کیا جائے

آج کے دور کی محبت ۔۔۔محبت نہیں نری ہوس ہے ۔۔آج کے دور میں خالص دودھ تو کیا خاص پانی نہیں ملتا محبت کہاں سے ملے گی عقل کے فیصلے جذبات سے کرنے کی بجائے زمینی حقیقتوںکے مطابق زندگی گذارنا پڑتی ہے ورنہ آپ بھی کہتے پھریں گے
دیکھے ہیں بہت ہم نے ہنگامے محبت کے
انجام بھی رسوائی، آغاز بھی رسوائی

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں