مقدر کے سکندر، قسمت کے دھنی جسٹس صداقت حسین راجہ کی عدالت العالیہ میں تعیناتی،قوم کی توقعات اور عدلیہ بحران 156

مقدر کے سکندر، قسمت کے دھنی جسٹس صداقت حسین راجہ کی عدالت العالیہ میں تعیناتی،قوم کی توقعات اور عدلیہ بحران

مقدر کے سکندر، قسمت کے دھنی جسٹس صداقت حسین راجہ کی عدالت العالیہ میں تعیناتی،قوم کی توقعات اور عدلیہ بحران

تحریر:شوکت جاوید میر
جس معاشرے میں انصاف نہ رہے، تباہی اس کی دہلیز پر دستک دے رہی ہوتی ہے اور حصول انصاف کے لئے کسی بھی ملک، ریاست میں اس کی عدالتیں فراہمی انصاف کا نشان منزل ہوتی ہیں، دنیا بھر میں وہ قومیں کبھی پسپا نہیں ہو سکتیں، جس کی عدالتیں آزاد ہوں اور انصاف برائے فروخت کا گماں نہ ہو، انصاف کا پیمانہ چہرہ یا رتبہ حسب نسب ہونے کے بجائے آئین و قانون کی بالا دستی ہو، ویسے بھی جس قوم کی خودداری، تشخص کا معیار جانچنا ہو تو اس کی لمبی چوڑی تاریخ کا مطالعہ کرنے کے بجائے مختصر ترین معلومات یہ حاصل کی جاتی ہیں کہ اس کی عدلیہ کا معیار انصاف کیا ہے،

آزاد جموں وکشمیر کی عدلیہ ایک زمانے سے بڑی نیک نامی کماتی آرہی تھی، کیونکہ اس کا اوڑھنا بچھونا صرف خوف خدا کے بعد آئین و قانون تھا،یہ الگ بات ہے کہ کسی بھی شعبے میں غلطی، رعائت، سماجی تعلقات کے فوائد حاصل نہ ہوں تو یہ بھی دیوانے کا خواب اور مجذوب کی بھڑک کی مانند ہے، پاکستان میں بھی اعلیٰ عدلیہ کے معزز جج صاحبان نے بڑی عزت و تکریم کمائی اور انہوں نے ایسے بھی منصف، منصب پر فائز رہے ہیں جنہوں نے لکھے ہوئے فیصلے پڑھے، انصاف کا قتل کا، قومی خواہشات کو پاؤں تلے روندا۔ اور سچ یہ ہے کہ نظریہ ضرورت کے مطابق کئے گئے فیصلوں نے ملک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا، بلکہ اس کی آئینی، اخلاقی، قانونی، جمہوری اقدار کو بھی کھوکھلا کیا، مولوی تمیز الدین سے لیکر محترمہ نصرت بھٹو کیس ہو یا 1973 ء کے آئین میں ترمیم کے لئے مطلق العنان غیر آئینی حکومت کو(ایل ایف او) ترمیم کا جواز فراہم کرنا،

قائد عوا م شہید ذوالفقا رعلی بھٹو کے عدالتی قتل کیلئے با اختیار قوتوں کے دباؤ میں کئے جانے والے فیصلوں کی گن گرج آج بھی انصاف پر مبنی بے شمار تاریخی فیصلوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے، ذوالفقار علی بھٹو شہید کے فیصلہ سزائے موت کو آج بھی پاکستان کی عدالتوں میں بطور مثال پیش نہیں کیا جا سکتا جو اس کی سب سے بڑی نا انصافی کی دلیل ہے، قارئین محترم پاکستان کے چیف جسٹس جسٹس نسیم حسن شاہ مرحوم کے ذوالفقار علی بھٹو شہید قتل کیس میں اعترافی بیانات، انٹرویوز آج بھی محفوظ ہیں، پاکستان میں اسمبلیاں توڑے جانے کا کھیل اور بحالی کے لئے عدلیہ کا دروازہ کھٹکھٹا نے کاتسلسل تاریخ کے اوراق میں موجود ہے، اسمبلیاں توڑنے کا اختیار آئین میں صدر پاکستان کے پاس تھا لیکن سابق وزیراعظم پاکستان شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کی اسمبلی تحلیل ہونے کا فیصلہ برقرار اور سابق وزیراعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف کی اسمبلی کافیصلہ معطل،

اسی طرح جسٹس قیوم ملک اور سابق وزیراعلیٰ میاں شہباز شریف کے درمیان ہونے والی گفتگو کی آڈیو لیک بھی قوم کے ذہنوں پر نقش ہے جس میں محترمہ بے نظیر بھٹو شہید اور سابق صدر پاکستان آصف علی زرداری کو سزاء تجویز کون کررہاہے، آزاد کشمیر میں عدلیہ کے ناموں میں جسٹس سردار سید حسن خان، جسٹس بشارت شیخ، جسٹس عبدالمجید ملک،جسٹس خواجہ سعید،جسٹس خواجہ شہاد، جسٹس شیر زمان، جسٹس یونس سرکھوی، جسٹس خورشید کیانی، جسٹس اعظم خان، جسٹس چوہدری ابراہیم ضیاء،جسٹس راجہ سجاد،جسٹس رضا علی خان سمیت بے شمار ایسے نام ہیں جنہوں نے آئین، قانون کی حاکمیت کا تصور عملاً اجاگر کیا،

تاریخ کسی کی قصیدہ خوانی کی محتاج نہیں ہوتی اورکسی کے اچھے کاموں پر پردہ پوشی بھی نہیں کی جاتی، حقائق خود بولتے ہیں، محترم قارئین آزاد کشمیر سپر یم کورٹ، ہائی کورٹ، شریعت کورٹ میں جج صاحبان کا تقرر آئین کے مطابق کیا جاتا ہے اور اس کے لئے مروجہ طریقہ اختیار یہی کیا جاتا ہے کہ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اور سپریم کورٹ کے چیف جسٹس باہمی مشاورت سے تین تین قابل وکلاء کا پینل صدرریاست کو ارسال کرتے ہیں جس کے بعد صدر آزاد حکومت ریاست جموں وکشمیر، وزیراعظم پاکستان، چیئرمین کشمیر کونسل سے حتمی منظوری حاصل کرتے ہیں، اس درمیان بے شمار اثر رسوخ، تعلقات، اہلیت، کنبہ برداری، ز ر چمک سب ہی اپنی اپنی جگہ پر استعمال کیے جانے کی اطلاعات زبان زد عام و خاص رہتی ہیں، لیکن یہ تاثر بھی ختم ہونا قوم کے مفاد میں ہے، البتہ محترمہ جسٹس صداقت حسین راجہ کی عدالت العالیہ میں تعیناتی سے قبل انکی ساری زندگی ایک کھلی کتاب کی مانند ہے، جنہوں نے زمانہ طالب علمی سے منفرد اور جرات مند جدوجہد کا آغاز کیا،

قانون کی ڈگری حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ پنجاب یونیورسٹی سے ایم ایس سی کا امتحان نمایاں کامیابی سے پاس کیا، جس کے بعد انھوں نے مظفرآباد میں وکالت کا آغاز کیا، انکی وکالت کے ابتدائی ایام سے اعلیٰ عدلیہ میں تعیناتی تک کوئی ان کا بدترین مخالف بھی یہ مثال پیش نہیں کر سکتا کہ انھوں نے کبھی اپنے پیشہ وکالت سے رو گردانی کی ہو، کبھی مظلوم کے ساتھ کھڑے ہونے سے مصلحت پسندی کا مظاہرہ کیا ہو، اپنی شہرت کے لئے کسی کوئی ایسا ذریعے کا سہارا لیا ہو جو معاشرے میں نا پسندہو، صداقت حسین راجہ وکلاء کے حقوق کے لئے ہراول دستے کا کردار ادا کرتے رہے،

سنٹرل بار کے سب سے کم عمر سیکرٹری جنرل منتخب ہونے کا اعزاز بھی رکھتے ہیں اگرچہ وہ وکلاء تنظیموں کے بے شمار عہدوں متمکن رہے اور انھوں ان عہدوں کو چار چاند لگائے، ظلم کے خلاف ہمیشہ علم بغاوت بلند کیا، وہ حلیف ہو ں یا حریف جسٹس صداقت حسین راجہ نے سیاست میں بھی عزت، وقار، شہرت دوستی، تعلق کی انمول خزانے حاصل کئے، جم کر خلق خدا کیلئے آسانیاں پیدا کرنے کی کوشش کی اور پھر اس قول کو سچ کر دکھایا کہ آپ اللہ کی مخلوق کے لئے آسانیاں پیدا کریں وہ آپ کے لئے عرش معلی سے آسانیاں نازل فرمائے گا، اس وقت اگر چہ آزاد کشمیر میں عدلیہ کا بحران شدت اختیار کر چکا ہے، وکلاء تنظیمیں سراپا احتجاج ہیں، بار ایسوسی ایشنز، بار کونسل آئین قانون کی بالاد ستی کے لئے میدان عمل میں برسر پیکار ہیں، اگر خاموش ہیں تو وہ ہمارے قومی سیاست دان، البتہ لے دے کر پیپلزپارٹی کے صدر چوہدری لطیف اکبر نے

ایک پریس کانفرنس کے ذریعے قومی حساس معاملات جن میں عدلیہ بحران اور آئندہ عام انتخابات پر اپنی ذمہ داری پوری کی، لیکن انتخابات کی آمد آمد سارے فرائض کی ادائیگی کو ایک لقمے سے اس ہڑپ کررہی ہے کل کو حکومت سازی بھی ہونی ہے، حصہ بقدر جسہ اپنے معاملات کو بھی محلوظ خاطر رکھتے ہوئے ایسی شخصیات کی ناراضگی کوئی بھی مول لینے کو تیار نہیں، جسٹس صداقت حسین راجہ نے عدالت العالیہ میں سستے اور فوری انصاف کی فراہمی کی راہیں کھولیں، فائلوں کو سرخ فیتوں کی نذر ہونے سے محفوظ بنا دیا گیا، وکلاء کی عزت و تکریم کو محلوظ خاطررکھتے ہوئے عام آدمی کی آس اور امید کو برقرار رکھنے میں اپنا بھرپور کردار ادا کیا، بار اور بینچ کے درمیان باہمی احترام کے رشتوں کو فروغ دیا، ہم منصب جج صاحبان کے درمیان اعتماد سازی کو تقویت بخشی، ماتحت عدالتوں کی جائز ضروریات کو پورا کرنے کے لئے حتی المقدور اقدامات اٹھائے،

یہاں تک ہی انہوں نے اپنے آپ کو محدود نہیں رکھا بلکہ پاکستان کی اعلی عدلیہ اور اداروں کے درمیان تال میل کو ایک نئی جہت دی، ان کا تعلق بھی ایک ایسے خاندان سے ہے جس نے ہمیشہ قومی غیرت اور وقار کے لئے سرجھکانے کے بجائے سر کٹانے کو ترجیح دی، اور ان کی رگو ں میں دوڑتا خون نہ تو کبھی پہلے انھیں کوئی مرعوب کر سکا اور نہ آئندہ ان سے کوئی طرم خان ایسی توقع کرنے کی جسارت کر سکتا ہے، کاش کہ پاکستان کی عدلیہ میں جسٹس صداقت حسین راجہ جیسے ماہر آئین و قانون جیسی جرات مند شخصیات کو تلاش کرکے تعینات کیا جائے جو لاؤ لشکر، رعب، دب دبے کے بجائے آئین، قانون کی حفاظت کرسکے، یہ دعوئے وزیراعظم پاکستان عمران خان نے قوم کے ساتھ کررکھے تھے

اور قوم کو فراہمی انصاف کی بہت امیدیں بھی دلائی تھیں لیکن تاحال ایک بھی دعویٰ اور وعدہ پورا نہیں ہو سکا، اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس جسٹس شوکت صدیقی کی فراغت اور جسٹس فائز عیسی کے خلاف دائر ریفرنس نے کئی پنڈورہ بکس کھول دیئے ہیں، آزاد کشمیر میں آئینی ترمیم کے لئے وزیراعظم راجہ فاروق حیدر خان کا جاندار کردار بھی قابل ستائش عمل ہے اور اس آئینی عمل کی تیاری کا کریڈٹ سابق وزیراعظم چوہدری عبدالمجید کی قیادت میں قائم پیپلزپارٹی کے دورے حکومت کی آئینی کمیٹی کو جاتا ہے جس کے سربراہ آزاد کشمیر کی عوام دلوں کے حکمران سابق وزیر ہائیر ایجوکیشن محمد مطلوب انقلابی شہید کو جاتا ہے جن کی سربراہی میں موجودہ وزیراعظم اور اس وقت کے قائد حزب اختلاف راجہ محمد فاروق حیدر خان، سابق وزیراعظم سردار عتیق احمد خان سمیت تمام سیاسی جماعتوں کے نمائندگان نے اتفاق رائے سے آئینی ترمیم تیار کی،

وفاقی حکومت کی رضا مندی حاصل کی، اداروں کو اعتماد میں لیا اور اس کے بعد آزاد کشمیر قانون ساز اسمبلی میں پیش کی گئیں، باوجود تاخیر ہوئی جس کے بعد اس آئینی ترمیم پر وزیراعظم راجہ فاروق حیدر خان اور اس وقت کے ایڈیشنل چیف سیکرٹری ترقیات فرحت علی میر نے دن رات محنت کرکے بڑی کامیابیاں حاصل کیں، قارئین محترم آج پھر قوم توقع کررہی ہے کہ آزاد کشمیر کی عدلیہ میں جسٹس صداقت حسین راجہ کی طرح ایمانداری، دیانتداری، فرض شناسی جیسی شہرت رکھنے والے ماہرین آئین و قانون کو برادریوں اور علاقوں کی چھاب سے مبرا ہو کر تعینات کیا جائے تاکہ ریاستی تشخص اور قومی وقار کی ضمانت مل سکے،اس ساری جدوجہد کے باوجود وزیراعظم راجہ محمد فاروق حیدر خان کا یہ انکشاف کہ اعلیٰ عدلیہ کے اعلیٰ منصب کے حصول کی خاطر ایک شخصیت کے نمائندگان 6 کروڑ روپے لیکر اسلام آباد میں ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں

اگر یہ بات سچ ہوگئی تو پھر انصاف نہیں پھر عدالتوں کی فروخت کا ایک نیا دور شروع ہوگا جس میں ایک عام آدمی سے لیکر وزارت عظمیٰ کے منصب پر فائز رہنے والوں سمیت سب کی گردنیں اڑتی دکھائی دینا کوئی انہونی نہیں ہوگی، قارئین محترم اختتام ان سطور پر کہ فرعون نے 4 سو سال تک حکومت کی، اس سارے عہد میں وہ خدائی دعوئے کرتا رہا، لیکن ذات کبیریا نے اس پر عذاب مسلط نہیں کیا اور پکڑ میں بھی نہیں لایا، اس لئے کہ وہ خدا سے تو اپنا تکبرانہ طرز عمل اختیار کرتا رہا لیکن انصاف کے حصول میں فرعون نے نہ رکاؤٹ برداشت اور نہ خو د بھی کوئی فیصلہ نا انصافی سے کیا، یہ انصاف کا معیار اور اللہ کے حضور اس کی پسندیدگی، شرک سب سے بڑا گناہ جس کی کوئی معافی نہیں، لیکن انصاف کی

وجہ سے اللہ نے اس کی پکڑ بھی بہت تاخیر سے لی اور لی بھی تو اس وقت جب وہ بھی نا انصافی پر اتر آیا تھا، ہماری اللہ تعالی سے دعاہے کہ جسٹس صداقت حسین راجہ کوانصاف کی وہ تاریخ رقم کرنے کی توفیق عطاء فرمائے جس سے رب راضی اور جگ راضی۔اگر چہ صداقت حسین راجہ مقدر کے سکندر اور قسمت کے دھنی ہیں انھوں نے ساری زندگی جدھر سر کیا ادھر ہی سرہانہ نکلا، اگر یوں کہا جائے کہ وہ سنگ پارس بھی ہیں جس نے ہاتھ لگایا وہ خود بھی سونا بن گیا، اللہ تعالی سرکار دوعالم اپنے حبیب ﷺ کے صدقے رمضان المبارک کی رحمتوں، سعادتوں، رحمتوں، فضیلتوں کے باعث ہم سب کو گھروں، معاشروں اور اپنے اپنے فرائض منصبی کی ادائیگی میں انصاف پسندی کی ہمت و سکت عطا فرمائے، آمین۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں