ترقیاتی فنڈز کے گرد گھومتی سیاست! 114

اپوزیشن کے پاس کوئی متبادل نہیں !

اپوزیشن کے پاس کوئی متبادل نہیں !

تحریر:شاہد ندیم احمد
اپوزیشن کی تنقید برائے تنقید عادت بن چکی ہے ،اپوزیشن قیادت ایسے مواقع کی تلاش میں رہتے ہیں کہ جس پر سیاسی پوائنٹ سکورنگ کی جاسکے ،حکومت نے اپنا بجٹ پیش کیا تو حسبِ معمول اپوزیشن احتجاج کرنے کیلئے تیار بیٹھی تھی، اس قدر زور دار احتجاج سامنے آیا کہ تصادم کا خدشہ پیدا ہونے کااندیشہ تھا، اپوزیشن وزیر خزانہ کی

تقریر پڑھے سونے بغیر ہنگامہ برپا کر رہی تھی،اس پر وفاقی وزیر اطلاعات فواد چودھری کا بیان بڑا وزن دارہے کہ کچھ پڑھے سنے بغیر اپوزیشن کا اعتراض انتہائی غیرسنجیدہ اور تنقید برائے تنقید کی ذیل میں آتا ہے، اپوزیشن محض احتجاج کی بجائے تجاویز پیش کرے، بہتر اور سودمند تجاویز کو بجٹ میں شامل کر لیا جائیگا،جبکہ اپوزیشن کے پاس کوئی معاشی متبادل نہیں ،وہ صرف تنقید برائے تنقیدکے ذریعے سیاسی فائدہ اُٹھانا چاہتی ہے۔
دنیا بھر کے جمہوری ملک میں ایوان میں موجود اپوزیشن کا بنیادی کام حکومت کی کارکردگی اور پالیسیوں پر نظر رکھنا اور ان پالیسیوں میں ترمیم کروانے کے لیے مواثر کردار ادا کرنے کا تصور ہوتا ہے، مغربی ممالک میں تو اپوزیشن کی جانب سے حکومتی قانون سازی کے مقابلے میں اپنی متبادل سفارشات پیش کی جاتی ہیں اورمؤثرحکمت

عملی اور بہتر متبادل ہونے کی صورت میں ایوان سے پاس بھی ہوجاتی ہیں، یوں عوامی مفاد میں بہتر قانونسازی کی بدولت ملک میں سیاسی و انتظامی استحکام اور عوامی سہولیات کا حامل معاشرہ پروان چڑھتا ہے ،جب کہ ہمارے ہاں اس کے برعکس ہوتا آرہا ہے ،ہماری سیاسی قیادت جمہوریت کے بڑی علمبر دار بنتے ہیں ،مگر ہمارے یہاں نہ تو جیسی جمہوریت پروان چڑھ سکی نہ ہی ابھی تک وہاں جیسا جمہوری نظام تشکیل پاسکا ہے۔
اس میں جہاںملک پر مسلط بدترین آمریتیں رکاوٹ رہی ہیں ، وہیں نام نہاد جمہوریت کی علمبردار سیاسی جماعتیں بھی برابر کی شریک ہیںجو اپنے اندر وسیع القلب جمہوری روایات پیدا نہ کرسکی ، ایک طرف سیاسی جماعتوں کی تنگ نظری و تنگ قلبی روش نے ملک میں ایک طرف جمہوریت اور جمہوری اداروں کو کمزور اور غیر جمہوری قوتوں کو مضبوط کیا تو دوسری جانب آمریت کا راستہ بھی ہموار کیا ہے،اس روش سے جمہوریت کا نقصان تو ہوا، لیکن اصل نقصان عوام کا ہوا ہے، جو ایک طرف ایسے ماحول میں اپنے مسائل و حقوق سے جڑی اپنی حقیقی آواز کھو بیٹھے ہیں تو دوسری طرف جمہوریت و آمریت اور جمہوری و غیر جمہوری قوتوں کے مابین فرق کی تمیز بھی کھوبیٹھے ہیں۔
عوام اب جمہوری نظام کے جوہر اور اُس کے ثمرات سے ناآشنائی کی وجہ سے اپنے حقوق و مسائل سے زیادہ ملک میں برپا سیاسی نورا کشتی میں الجھے رہتے ہیں،اپوزیشن زبانی کلامی نظریاتی سیاست کی بات کرتے ہیں ،مگرعملی طور پر مفاداتی سیاست کو فروغ دیا جارہا ہے ،یہ جمہوریت کا حسن ہے کہ اپوزیشن اور حکومت کو کبھی کبھار ملکی

مفاد میں مل کر بھی چلنا پڑتا ہے، وفاقی وزیر فواد چوہدری نے حکومت اور اپوزیشن دونوں کو ایک ایجنڈے پر کام کرنے کی اپیل کی ہے، مگراپوزیشن کی جانب سے کوئی جوابی مثبت آواز سننے میں نہیں آرہی ہے، جمہوری روایت تو اختلاف رائے کو ملحوظ رکھتے ہوئے ایک ساتھ چلنے پر زور دیتی ہے ،اگراپوزیشن کی نظر میں بجٹ عوام دشمن ہے تواسے اپنی متبادل تحاویز پیش کرنی چاہئے، مگراپوزیشن کی جانب سے صرف میڈیائی بیانات پر ہی اکتفا کیاجارہا ہے۔
حکومتی بجٹ پر پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور قائد حذب اختلاف میاں شہباز شریف نے حکومت کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا ہے کہ موجودہ بجٹ عوام کے زخموں پر نمک پاشی کے مترادف ہے،اپوزیشن پارٹیاں مل کر حکومت کو پارلیمنٹ میں ٹف ٹائم دیں گی، لیکن اپوزیش کے ایسے رسمی اجلاس اور بیانات حکومت کو پہلے

کوئی ٹف ٹائم دے سکے نہ ہی آئندہ دے سکیں گے ،کیو نکہ اپوزیشن کے حکومت مخالف اجلا س میں عوام کے حقیقی مسائل کا کوئی ایجنڈہ طے ہوپاتا ہے نہ ہی عوامی مسائل پر اعلامیہ جاری ہوتا ہے ،بلکہ بجٹ کا بھی کوئی عملی متبادل پیش نہیں کیا جاتا ہے ،کیو نکہ اپوزیشن کے پاس بھی الزام تراشی کے علاوہ عوام مسائل کے تدارک کا کومتبادل حل موجود نہیں ہے ۔
یہ سچ ہے کہ حکومت کی تین سالہ کارکردگی نے عوام کو انتہائی مایوس کیا ،مگر یہ بھی سچ ہے کہ حکومت حقیقت پسندانہ پالیسیاں اختیار کرکے ملک کو معاشی بحران سے نکال رہی ہے اور اب خوشحالی کا سفر شروع ہو چکا ہے،تاہم عام آدمی کے لیے بجٹ کے حوالے سے اصل اہمیت اعداد و شمار، دعووں اور وعدوں کی نہیں، ان اثرات و نتائج کی ہوتی ہے جو کہ بجٹ کے نفاذ سے ظہور میں آتے ہیں۔ روزگار کے مواقع بڑھیں، مہنگائی کم ہو، زندگی کی

سہولتوں میں بہتری آئے، تعلیم اور علاج معالجہ آسان ہو، اہلیت کی بنیاد پر ترقی کے مواقع امیر و غریب سب کو یکساں طور پر فراہم کیے جائیں تو ایسا بجٹ عوام کی نگاہ میں اچھا ہوگا اور نتائج اس کے برعکس ہوں تو ناپسندیدہ قرار پائے گا، نئے وفاقی بجٹ کو بھی عام آدمی اسی کسوٹی پر جانچے گا،حکومت ایک اچھا متوازن بجٹ دینے میں کا میاب رہی ہے ،اپوزیشن کو بے جا تنقید کی بجائے بہتر تجاویز سامنے لانی چاہئے،توقع ہے کہ اپوزیشن ہنگامہ آرائی کی بجائے محنت کر کے سنجیدہ اعتراضات کرے گی اور بجٹ کے خراب اور عوامی بہبود کے خلاف پہلوؤں کو آشکار کر کے خرابیاں دور کرائے گی۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں