قدرت کے کاموں میں دخل اندازی کرنے کی سزا بھی، عبرت ناک ہوا کرتی ہے" 225

عالمی شہرت یافتہ جمہوری دور میں بھی، آزاد خود مختار مگر مجبور ہم انسان

عالمی شہرت یافتہ جمہوری دور میں بھی، آزاد خود مختار مگر مجبور ہم انسان

فقط
احقر
محمد فاروق شاہ بندری

عالمی شہرت یافتہ جمہوری دور میں بھی، آزاد خود مختار مگر مجبور ہم انسان
۔ نقاش نائطی
۔ +96654960485
۔
بمثل طائر بےپر پنجر زر میں مقید ہوں
خداجانےکھلیں کب پٹ اڑتا چلا آؤں جاناں کے پاس

ویکسی نیشن نہ لگوانے پر سعودی عرب میں سرکاری جگہوں اور پبلک ٹرانسپورٹ میں داخلہ بند https://bit.ly/3BzZgbQ

ہم اپنے آپ کو سب کچھ کرسکنے والی حیثیت والا جو سمجھا کرتے تھے ہم اپنے آپ میں کتنے مجبور وغلام ہیں یہ اس سقم کورونا قہر کہرام نے ہمیں دکھا بھی دیابلکہ خوب اچھی طرح بتلا اور جتلا بھی دیا ہے۔ نہ صرف ہم، اس عالم کے 700 کروڑ انسانیت میں سوائے چند سو ہزار یا لاکھ انسانوں کے جو یا تو اس عالم کی نیا کو پار لگوانے کی

استعداد اپنے میں پاتے ہیں یا عقل و عرفان سے عاری کچھ پاگل جو عالم کے ہر گوشے میں پائے جاتے ہیں، یا وہ انسانیت جو، ان انسان نما تعلیم یافتہ حیوانوں کی پہنچ سے باہر جنگل و بیابان میں بسا کرتی ہے، سوائے ان کے عصری جدت پسندی سے متعارف انسانیت کے ہر اس طبقہ کو انہوں نے ایک تسلسل والی غلامی کی زنجیر سے ہر ان کے جاری فرمان ماننے اور عمل کرنے پر مجبور کر چھوڑا ہے۔

غلامی ضروری نہیں یہود و ہنود و نصاری کی ہی براہ راست کی جائے ہمیں ہمہ وقت کسی نہ کسی مجبوری کے تحت کبھی معاشرے کے رسم ورواج کا تو کبھی معاشرے میں اپنی عزت و ساکھ بچائے رکھنے کے لئے حالات سے سمجھوتہ کرتے، اپنی من مرضی کے خلاف کام کرنے ہی پڑتے ہیں۔ اسے ہم آپ مجبوری کا نام دیں یا غلامی کا؟ اسلامی آداب کے

تحت بیوی میاں کی فرما بردار جو رہتی ہے اسے جدت پسند عصری دنیا، مردوں کی غلامی سے تعبیر کرتے ہوئے، آزادی نساء کے دعوے تلے، اسے صرف اپنے شوہر کے علاوہ معاشرے کا غلام جہاں بناتی ہے وہیں پر، جدت پسند تعلیم یافتہ دنیا کی اکثریت زن مرید بن زن غلامی، شوق سے جہاں کرتی ہے وہیں پر کچھ زیادہ علم و عرفان کے پیکر، نساء پر ظلم و بربریت کی انتہا کر،اپنے آپ کو زن غلامی سے ماورا ثابت کرتےگھومتے پائے جاتے ہیں،بہر کیف اپنے آپ کو آزاد و خود مختار کہے جانے والا یہ تعلیم یافتہ یا غیر تعلیم یافتہ معاشرہ کہیں نہ کہیں ایک دوسرے کی غلامی کرتا ہوا ہی پایا جاتا ہے

2020 کی ابتداء ہی میں، جب سے اس سقم کرورونا نے عالم کے مختلف حصوں میں دستک دینا شروع کیا تھا، اسے ہم نے اسکی تمام تر ہلاکتوں کے باوجود عام سی فلو انفلوینزا،ملیریا جیسے موسمی اسقام سے تشبیہ دیتے، اسے کم تر یا کم وقعت کرکے پیش کرنے کی کوشش کی تھی، لیکن اس وقت کیا پتہ تھا ایک وقت یہی ہمارا معمولی سمجھا جانے

والا سقم کورونا، ہمیں اپنی مرضی کے خلاف آسی کے جرثوموں کو مدافعتی نظام کے تحت، اپنے جسم کے خون میں دوڑانے پر مجبور ہونا پڑیگا۔ ہاں 16 جون کے بعد آج 26 جولائی 2021 ہم نے، نہ چاہتے ہوئے بھی حالات سے مجبور ہوکر، قانون ارضی کا پاس و لحاظ رکھتے ہوئے، کوئڈ 19 سے بچاؤ کے لئے بنائے گئے دونوں تطعیم یا ویکسین لگوالئے ہیں

ان کویڈ ویکسین بنانے والی کمپنیوں اور ملکوں کے اس اعلان کے باوجود کہ اس ویکسین کے لینے کے بعد کویذ 19 سقم سے صد فیصد نجات بھی ملیگی؟ یا اس ویکسین سے انسانی جسم پر ہونے والے کسی بھی سائیڈ ایفیکٹ یا مستقبل میں ہونے والے کسی بھی مہلک مرض سےویکسین ساز کمپنی یا ملک ذمہ دارنہیں ہوگا اس صریح اعلان کے باوجود، ایک انجانی طاقت و قوت، امراء و شاہان یاکہ جمہور ملکوں کے سربراہوں و حکمرانوں کے واسطے سے پوری انسانیت کو،اس ویکسین کے لینے کا نہ صرف پابند بنا رہی بلکہ ویکسین نہ لینے والوں کو دانستا” کچھ اپنے مربوط نظم و سازش کے تحت،اس ترقی پزیر عالم میں جینے کے حق ہی سے محروم کررہی ہے

کوئی بتائے ایک ایسا مرض جو اب تک اپنی بتائی گئی پوری قہر سازی کے باوجود، عالم کی آبادی کے دس فیصد حصہ ہی کو متاثر کئے ہوئے ہے اور ان متاثرین کویڈ میں سے بھی، 90% صحت یاب ہوچکے ہیں، ایسے میں قدرت کے عطا کردہ قدرتی خود مدافعتی ایمیون سسٹم سے، اس مہلک بیماری سے بچ چکے ہوں عالم کے اس مشہور اوصول وفلسفہ، لوہا لوہے کو کاٹتا ہے اور کانچ کانچ کو کاٹتی ہے، کسی بھی موذی سے موذی مرض کو،

اسی مرض کےجرثوں سے ہی، حضرت انسان کو اس وبائی مرض سے وقتی طور ہی صحیح محفوظ رکھا جاسکتا ہے۔ اس اوصول کے تحت انسانیت کو مجبور کرتے ہوئے، انکے جسم و خون میں اس مہلک سقم کے جراثیم ہی شفایابی کے طور داخل کرنے میں کونسی عقل مندی پنہاں ہے سوائے اس نکتہ کہ ایک انجانی قوت پورے عالم کی انسانیت کو ایک آنکھ یا ایک حکم سے اپنا غلام بنا سکتی ہے یہ ضابطہ کیا جائے

آج کل کی سائبر میڈیا پر کچھ عقل کے اندھوں کی طرف سے مشہور کہ انسانی آنکھوں سے نہ دیکھا جانے والا مائیکرو چپ اس کویڈ ویکسین کے ذریعہ سے انسانی خون میں داخل کرتے ہوئے، عالم کی کل انسانیت کو عالمی یہود ونصاری انجانی قوتوں کا غلام بنارہا ہے۔ چپ والا تفکر تو لایعنی ہے لیکن اس ویکسین کے ذریعہ سے عالم کی کل انسانیت کو غلام بنائے جانے والی بات میں کہیں نہ کہیں دم ضرور ہے، ورنہ یوں 90فیصد اس کویڈ مرض اثرات سے ماورا انسانیت کو جدت پسند طریقہ، ممالک کے حکمرانوں کے واسطے قانون سازی سے زبردستی یہ کویڈ ویکسین لگوانے میں کہیں نہ کہیں کچھ راز تو پنہاں ضرور ہے جسے کھوج نکالنا عقل و فہم و ادراک رکھنے والوں کا کام ہے
بچپن میں پڑے اس واقعہ نے، اپنی حد تک ہمیں اس گتھی کو سلجھانے میں مدد ضرور کی ہے۔صاحبان حل عقل و عرفان اسے کس زاویے سے حل کرتے ہیں مستقبل میں یہ بات اظہر من الشمس کی طرح کھل کر سامنے آجائے گی انشاءاللہ

ایک گاؤں میں بہت بڑے پہنچے ہوئے اللہ کے ولی رہتے تھے ان کا فہم و ادراک مشیت ایزدی کے تحت، ان دیکھی چیزوں کو محسوس و دیکھا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ صبح نہار منھ گاؤں کے باہر چہل قدمی کررہے تھے تو حضرت شیطان کو گاؤں کی طرف جاتے دیکھ اس سے ہم کلام ہو اسے گاؤں کی بھولی بھالی عوام کو بہکانے اور انہیں راہ راست سے گمراہ کرنے نہ دینے کی خاطر روکنا چاہا تو شیطان رجیم نے ان سے کہا کہ میرا ازل سے یہی کام ہے

کہ میں اولاد آدم کوراہ راست سے بہکاؤں آپ انہیں بچانا چاہتے ہیں تو انہیں جا سمجھائیں، میرے کام میں روڑا نہ بنیں۔ بزرگ نے کہا نہیں اللہ نے میرے بازو میں اتنا دم خم دیا ہے کہ میں تمہیں روکونگا۔ تھوڑی وقت کی تکرار کے بعد یہ طہ پایا کہ وہ بزرگ اور شیطان کشتی کا مقابلہ کریں گے اوراگر شیطان جیت جاتا ہے تو بزرگ اسے بنی آدم کو راہ راست سے بہکانے بستی میں جانے سے نہیں روکیں گے اور اگر بزرگ جیت جاتےہیں،توشیطان اس بستی کے لوگوں کو بہکانے دوبارہ کبھی نہیں آئیگا اور شروع ہوئے کشتی مقابلے میں چونکہ بزرگ جیت جاتے ہیں وہ شیطان اپنی ہار تسلیم کر واپس چلا جاتا ہے

کچھ مدت بعد گاؤں سے باہر ویرانے میں صبح سویرے بزرگ ٹہل رہےہوتے ہیں شیطان رجیم کو دوبارہ گاؤں کی طرف آتا دیکھ مخاطب ہوتے ہیں “آئے مردود تو اپنے اصل کروتوت،وعدہ خلافی پر عمل پیرا، پھر اس گاؤں کی طرف چل پڑا ہے، کیا تجھے تیرا وعدہ یاد نہیں؟ کہ تو مجھ سے کشتی میں ہارے گا تو دوبارہ اس گاؤں کی طرف پلٹ نہ دیکھے گا پھر کیوں واپس چلا آیا ہے؟ کیا تجھے میرا وہ پٹخنی دے ہرانا یاد نہ رہا؟”

شیطان بڑی متانت سے کہتا ہے “کیا کروں یہ میرا کام ہی ہے اولاد آدم کو راہ راست سے بہکانا۔ آپ کے اپنے اس وقت کے مجھے پٹخ ہرانے پر اتنا ہی غرور ہے تو چلئے آج بھی دو دو ہاتھ ہوجائے آج اگر آپ جیت گئے تو میں قسم کھاتا ہوں دوبارہ اس گاؤں کے لوگوں بہکانے نہیں آونگا۔”
بزرگ تیار ہوجاتے ہیں کشتی شروع ہوجاتی ہے گذشتہ دفع باوجود مکرر کوشش کے شیطان بزرگ کو ہرا نہیں پایا تھا اب کی پہلی ہی پٹخنی میں بزرگ کو ڈھیر کر دیتا ہے اور بڑے ہی کروفر کے ساتھ سینہ تانے گاؤں کی طرف چلنے لگتا ہے۔اپنی ہار سے پشیمان بزرگ شیطان سے پوچھتے ہیں “یہ تو بتاتے جا،تو تو وہی ہے، اور میں بھی وہی، آج کس آسانی سے تونے مجھے مات کیسے دی ذرا بتاتو جا”

شیطان کہتا ہے”گذشتہ دفعہ جب میں کشتی ہارا تھا تو اس کے کچھ دنوں بعد میں نے تیرے سرہانے تکیہ کے نیچے کچھ سونے کے سکے یا اشرفیاں رکھتے ہوئے، جیسے خالق و مالک کائینات، گویا ہوتے ہیں اسی رعب دار آواز میں، تجھے نیند سے بیدار کر، میں نے یہ کہا تھا کہ ‘آئے فلاں ابن فلاں میں تجھے پیدا کرنے والا اللہ، تیری بندگی اور ایمانی قوت سے میں خوش ہوا ہوں، اس لئے تیرے اگلے پچھلے سب گناہ معاف کرتے ہوئے تجھے انعام کے طور کچھ سونے کے سکے دے رہا ہوں اسے استعمال کر” یہ کہہ کر میں اس وقت غائب ہوگیا تھا لیکن توں تکیہ کے

نیچے اشرفیاں پاکر دولت کے لالچ میں، یہ بھول گیا کہ یہ میری یعنی شیطان کی حرکت بھی ہوسکتی ہے اور توں اسے اللہ کا دیا تصور کر استعمال کرنے لگا ۔ پہلی دفعہ جب میرا تیرا مقابلہ ہوا تھا تیرےبدن میں حلال رزق کی کمائی والا خون دوڑ رہا تھا اس لئے باوجود مکرر کوشش کے، میں تجھے مات نہ دے سکا یہی سوچ کر میں نے ہی تیرے تکیہ کے نیچے وہ اشرفیاں رکھی تھی اور توں میرے جال میں پھنس گیا۔ اب چونکہ تیرے بدن میں میرے دئیے حرام اشرفیوں کا خون دوڑ رہا پے اس لئے پہلی ہی پٹخنی میں تجھے ہرانے میں کامیاب ہوچکا ہوں اب زندگی پھر توں مقابلے میں مجھے ہرا نہیں سکتا”

ہم آپ خود تدبر و غور خوص کریں آج کے زمانے میں کون ہے؟ جو باقی بچا ہے جس کے بدن میں حرام اغذیہ کا ایک ذرا بی نہ گیا ہو، سوائے اللہ کے، جسے وہ بچانا چاہے، اور اب تو اس حرام غذا بمثل، ان یہود وہنود و نصاری عالمی دجالی قوتوں کے تقسیم کئے فارمولے کے ذرات، عالم کے مختلف ممالک میں تیارکردہ ان کویڈویکسین کی صورت ہمارے خون میں دوڑائیے جاچکے ہیں جو ہمارے چاہتے نہ چاہتے ہوئے بھی، ان دجالی قوتوں کے غلام ہمیں بنائے جانے کے لئے کافی ہیں۔ ویسے بھی اس سقم کورونا قہر نے، نہ چاہتے ہوئے بھی، ہم سے بہت کچھ کرواتے ہوئے، ہمیں ایک حد تک دجالی قوتوں کا غلام بنائے جانے کا ثبوت فراہم کر ہی دیا ہے۔

یہاں ایک بات جو سمجھ سے بالاتر ہے وہ یہ ہے کہ عالم کے پس ماندہ اور غریب ملکوں میں سے ایک، عالمی حربی قوتوں سے نبزد آزما افغان طالبان کیوں کر اور کیسے اس کورونا قہر سازی سے آمان پائے ہوئے ہیں کہ وہاں ان 70 یا 80 ہزار افغان مجاہدین کو سقم کورونا ہونے یا اس سقم کورونا کے باعث کسی افغانی مجاھد کے انتقال کرنے کی کوئی خبر نہیں آئی ہے۔ ہوسکتا ہے ان مجاہدین کے جسموں میں دوڑنے والامجاھدانہ خون، ان میں اس کوئڈ سقم سے مقابلہ کے لئے ان کے ایمیون سسٹم کو مکمل ممد و مددگار ثابت ہوا ہو۔ واللہ الاعلم بالتوفیق اللہ باللہ

800 سو سالہ خلافت راشدہ اور 500 سو سالہ خلافت عثمانی جملہ 1300 سو سالہ اسلامی حکومت اس بات کی گواہ ہے، کہ اس لاسلکی دور میں بھی مسلمانوں کی سرکوبی کے لئےنکلنے والےابوجہل کےلشکر جرار کی خبر ، اس وقت معمولی سمجھے جانے والے مدینہ میں قائم مسلم حکومت کو اپنے مخبروں کے ذریعے ہو یا یوں کہیں ڈرائع ابلاغ یا میڈیا ھاؤس کی وجہ سے، انہیں پہلے سے پتہ چل چکا تھا کہ مکہ سے ابوجہل لشکر جرار لئے نکل چکا ہے، اسی لئے تو خون خرابے سے نساء و بچوں کو آمان دینےکی خاطر، اپنی بے سرو سامانی

کے باوجود، بچوں بوڑھوں پر مشتمل اپنے 313 ساتھیوں کے ساتھ مدینہ سے ڈیڑھ سو کلو میٹر دور پیدل چل کر بدرکی رزمگاہ میں مقابلہ آرائی کو پہنچنا آپﷺ نےترجیح دیاتھا۔ ان 1300 سو سالوں میں جب تک عالم پر اسلامی حکومت قائم تھی اس وقت عالم کے کسی بھی کونے میں مسلمانوں کے خلاف رچی جانے والی سازش کا ڈٹ کر مقابلہ کیا جاتا رہا ہے۔ شایداسی لئے جنگ عالم اول لڑنے والی عالمی یہود و نصاری، و لاخدائی اشتراکی، امریکہ روس

جاپان ویورپئین ممالک پر مشتمل قوتوں نے،اپنے تمام تر اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے، پوری قوت وسازش کے ساتھ، خلافت عثمانیہ میں ہی سے،اپنوں کی وفاداریاں خریدتے ہوئے، اسلامی شان سمجھے جانےوالی خلاف عثمانیہ کو تاراج کرتے ہوئے، 1300 سال تک، بیشتر عالم پر حکمرانی کرنے والی قوم مسلم کو، بے مہار اونٹ کی طرح آزاد مگر سرکش عیاش حکمرانوں کی صورت بے بس چھوڑ دیا ہے اور مسلم دشمن قوتیں اپنی تمام تر سازشوں سے دوبارہ کسی مسلم قوت کو ابھرنے نہیں دینا چاہتی ہیں۔

اللہ کے رسول ﷺ کی اغزوہ ھند والی پیشین گوئی مطابق ان ایام اکیسویں صدی کے آخری دہے میں اس وقت کی عالمی طاقت روس کو شکشت دینے، پاکستان کی مدد سے، خود صاحب امریکہ کے ہاتھوں تیار کی ہوئی افغانی طالبانی حکومت اور اس خطہ میں ایٹمی قوت بننے والے پاکستان کو ختم کرنے ہی کے لئے، امریکہ ہی میں خود ساختہ 9/11 دہشت گردانہ حملہ کی آڑ میں اپنےہی ہزاروں امریکیوں کا بلیدان دیتے ہوئے، 52 ممالک کی افواج پر مشتمل عالمی طاقت امریکہ،پورے لاؤ لشکر اور جدت پسند آلات حرب کے ساتھ ستمبر 2001 میں افغانستان آیا تھا

قرآن مجید میں اللہ رب العزت کے فرمان مطابق “وَمَكَرُواْ وَمَكَرَ ٱللَّهُ ۖ وَٱللَّهُ خَيْرُ ٱلْمَٰكِرِينَ”، “اور انہوں نے سازش کی اور اللہ نے تدبیر کی، اور اللہ ہی بہترین تدبیر کرنے والا ہے”۔ 52 ممالک کی جدت پسند عالمی طاقتوں کےمقابلے گو افغانی طالبان تقریبا نہتے لاچار تھے لیکن ان کے پاس موجود جذبہ ایمانی اور جذبہ جہاد کافی تھاان کے لئے، 52 ممالک پرمشتمل عالمی سطح پر سب سے بڑے حربی گٹھ جوڑ کو شکشت فاش دینے کے لئے، اور ان عالمی یہود و نصاری طاقتوں کے نشانے پر رہا معشیتی طور کمزور و ناتواں عالمی بنک کا مقروض ایٹمی ملک پاکستان،

براہ راست ان عالمی قوتوں سے بھڑنے کے بجائے، عقل و سلیم کا استعمال کرتے ہوئے، عالمی قوتوں کا حلیف بنے رہے، انہیں ایک طرف کمزور کرتا رہا اور انہی کی عطا کردہ مدد و نصرت پر نہ صرف خود، خوب عسکری ترقی حاصل کرلی بلکہ در پردہ افغانستانی طالبان کی پشت پناہی کرنے ہوئے، پاکستان و افغانستان کو نیست و نابود کرنے آئے، یہود و نصاری کی سازشوں کو خود انہی پر پلٹتے ہوئے، انہیں نہ صرف بڑے بے آبرو ہوکر تیرے کوچے سے ہم نکلے مثل مصداق عالم کی سوپر پاور صاحب امریکہ کی افواج کو اپنے افغانستانی ائر بیس بگرام سے، شب کی تاریکیوں میں بھاگ نکلناپڑآ

اب صاحب امریکہ اپنی ہار تسلیم کر افغانستان سے بھاگ جانے کے باوجود، آخر کیوں چائینا کا ڈر ظاہر کر، اس اطراف اپنی ایر بیس تلاش کرنے میں مصروف ہے؟ یہ دراصل عالمی یہود و نصاری اور افغانستان پاکستان کے مابین جنگ نہیں ہے بلکہ اسلامی مملکت افغانستان کو ایک طرف بننے نہیں دیا جارہا ہے کہ اس جدت پسند تعلیمی ترقی یافتہ دور

میں 1442 سال پرانا، ان کے بقول آؤٹ ڈیٹیڈ اسلام،عملی طورکامیاب چلاکر دکھایا جائے تو مسلم اکثریتی عرب و عجم کےممالک میں بھی اس ناکام جمہوریت کے چلتے، اسلامی انقلاب آتے ہوئے، پھر ایک مرتبہ اسلامی سلطنت کا قیام ظہور پذیر نہ ہوجائے۔ یہی وہ خوف ہے جو عالمی یہود و نصاری سازش کنندوں کو افغانستان و پاکستان کی تاراجی میں ہی اپنی عافیت نظر آتی ہے وما علینا الا البلاغ

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں