قدرت کے کاموں میں دخل اندازی کرنے کی سزا بھی، عبرت ناک ہوا کرتی ہے" 193

کہاں گئے وہ چمنستان بھارت کے محبت چین و آشتی کے دن؟

کہاں گئے وہ چمنستان بھارت کے محبت چین و آشتی کے دن؟

نقاش نائطی
۔ +966504960485

آج بعد ظہرمختلف بزم واٹس پر، توضیع وقت گزاری کر رہے تھے کہ ایک خبر پر نظر مرکوز ہوئی۔ ہم سے عمر میں کچھ چھوٹے مگر، ہمارے ہم عصر مرحوم قاضی عبدالکریم ماسٹر کے چھوٹے فرزند ارجمند اور مرحوم خیال ماسٹر کے چھوٹے داماد محمد نعیم قاضی کے، انجمن حامی المسلمین کے ماتحت چلنے والے اسلامیہ اینگلو اردو ہائی اسکول میں بطور لائبریرین شاندار خدمات انجام دے، ان کے ریٹائرمنٹ تقریب کی روئداد پڑھتے ہی، انہیں براہ راست فون کر مبارکباد دینے کی خواہش نے، دل میں انگڑائی لی۔ چونکہ انکا نمبر ہمارے پاس نہ تھا ہمارے ایک کلاس فیلو شبیر مومن کو فون کر ان سے نمبر لئے،نعیم سے براہ راست رابطہ قائم کیا۔ غالبا دس ایک سال بعد ہماری ملاقات ہورہی تھی۔چار سارے چار دہے قبل کے،

بے تکلفانہ تعلقات، دو ایک منٹ کے علیک سلیک کے بعد چار دہوں قبل کے واقعات تناظر میں، ہم ایسے کھوئے کہ ان ایام کے کچھ واقعات، ذہن کے پردہ سمین سے لبوں پر آتے آتے ہماری آواز گویا فرط جذبات میں بھاری سی ہوگئی۔عزیزم نعیم اپنی 42 سالہ خدمات قومی تعلیمی ادارے انجمن حامی المسلمین کی خاموش خدمت کرتے ہوئے،اپنے والد محترم مرحوم قاضی عبدالکریم ماسٹر اور سسر محترم مرحوم خیال ماسٹر دونوں استاد انجمن حامی المسلمین کی ڈگر پر، یہ انکی دوسری نسل قوم و ملت کی خدمت انجام کرتے ہوئے، ابھی کچھ روز قبل ریٹائرڈ یا تقاعد لئے ہوئے ہیں۔

اللہ ان کی قوم و ملت کے تئیں خدمات کو انکے خلوص کے پیش نظر قبول کرے اور اس تقاعد والی زندگی میں بھی،اپنی استطاعت کے اعتبار سے ان سے مزید خدمات لے اور انہیں صحت کاملہ والی لمبی زندگانی عطا کرےاور انکے والدمحترم و سسر محترم کی بال بال مغفرت فرمائے،ان کی قبر میں جنت کی ہوائیں چلائے اور جنت کے اعلی مقام کوانکےلئے محجوز رکھے آمین فثم آمین

چار ایک دہے قبل کے ایک دو واقعات جو دوران گفتگو یاد آئے تھے اس پر طائرانہ نظر ڈالتے ہیں تو اس چمنستان بھارت میں، ہم بہت کچھ کھویا کھویا محسوس کرتے ہیں۔ زمانہ تلمیذی کے وہ حسین ایام، اعشاریہ 22 بور والی چھرے کی ایرگن لئے، نصف اسکول چھٹی والی جمعرات کو سرشام سائیکل پر قرب و جوار والے دیہات شکار کے لئے نکلنا اور ڈھیر سارے ہنس، بگلے، کبوتر فاختائیں، شکار کر گھر لانا، ایک شام ایسے ہی سائکل پر ایرگن باندھے شرالی ہائے وے کے بائیں طرف ساحل سمندر کی طرف ہم جارہے تھے کہ اس سڑک پر قائم ایک بڑے مندر سے ہمیں

مخاطب کر آتی آواز پر ہم رکے، مندر کے پجاری نے آواز دی تھی،سائیکل پر ایرگن بندھے ہونے کی وجہ سے اسے مندر کے باہر سر راہ چھوڑ جانے کے بارے میں سوچ ہی رہے تھے کہ پچاری نے سائکل آندر لانے کا اشارہ دیا۔ہم مندر کے اندر سائیکل روک پجاری کے پاس جانے لگے تو، پجاری نے آواز دے کے کہا ایرگن لے آؤ۔ ڈرتے ڈرتے بادل ناخواستہ ایرگن لئے مندر کے اندر گئے تو پجاری نے اشارہ کر بتاتے ہوئے کہا یہ کبوتر مندر کے اندر بہت گند پھیلاتے ہیں تم انکا شکار کرو،تمہارا شکار بھی ہوجائیگا اور ہمیں ان کے گند سے چھٹکارہ بھی مل جائیگا۔

ہم نے نشانہ باندھا ایک کبوتر زخمی ہوکر گرہڑا ابھی اسے ذبح کرنے کے لئے باہر دالان میں ہم اسے لے جاناچاہ رہے تھے پچاری ہمارے تذبذب کو بھانپ گیا اور کہا نہیں باہر مت لیجانا، یہی نالی کے پاس ذبح کردینا، میں پانی ڈال صاف کرونگا۔ خیر مختصر دو چار کبوتر ہم نے مارے لیکن آج جب ہم ماضی کے جھروکوں میں جھانکتے ہیں تو ہمیں، دور دور تک وہ گنگا جمنی ھندو مسلم بھائی چارگی والی خوشگوار فضا نہیں ملتی ہے،کہاں کھودیا ہم وہ گلستان چمن، اور بھارت کے وہ اعلی اقدار، جب مندر میں تہوار ہوتا تو بانکپن میں لڈو کھانے ہم پہنچ جاتے تھے اور ہمارے شادی گھروں میں ڈھیر سارے قرب و جوار کے ھندو، کیلے، کٹھل سبزیاں اور مرغ لئے شادی گھر پہنچ جایا کرتے تھے۔ پانچ سو سالہ بابری

مسجد کو ڈھاکر، ابھی رام مندر کی صرف بنیاد ہی رکھی گئی ہے، پہلے سے تیرہ رام جنم استھان مندروں والے ایودھیہ رام نگری میں، 500 سو سالہ بابری مسجد کو منہدم کر، پورے چمنستان بھارت میں، ہزاروں سال سے ایک دوسرے کا درد دکھ بانٹتے ،ساتھ جیتے آئے ھندو مسلمانوں میں دراڑ ڈالتے ہوئے رام مندر تعمیر کرنےکی کیا ضرورت تھی؟ کیا اس ایک، چودھویں رام جنم استھان مندر کے لئے، پورے بھارت میں ھندو مسلم نفرت کی آگ بھڑکانی ضروری تھی؟ہزاروں سالہ ھندو مسلم بھائی چارگی کونفرت میں بدلنا کیا ضروری تھا؟ خدا غارت کرے ان گند ذہن سیاست دانوں کو، جنہوں نے رام کے نام پر ھندو مسلما ن کے درمیان نفرت کی آگ بھڑکا، اپنی سیاست کی روٹیاں سینکیں

دوران گفتگو ایسے ہی ایک اور واقعہ کا تذکرہ آگیا غالبا وہی چار ساڑھے چار دہوں قبل کا واقعہ ہے اسٹیٹ بنک آف انڈیا کےمقامی ھیڈ کیشیرجناب منصور مرحوم کے ساتھ چار اسکوٹر پر 17 کلومیٹر دور ہوناور جیسز کلب میٹنگ میں ہم، ہمارے مرحوم بہنوئی کا اسکوٹر لئے گئے ہوئے تھے۔ شب واپسی پر منکی کے بعد گنونتی کے مقام پر ہماریب اسکوٹر خراب ہوئی۔ سب ساتھ مل کر دیر گئے تک اسکوٹر ٹھیک کرنے کی کوشش کی لیکن رائیگاں گئی۔ ساتھیوں نے کہا ہائی وے پر کنارے کی جھاڑیوں میں اسکوٹر چھپاکر وطن واپس آتے ہیں۔ کل صبح میکانک کو لیجا ریپیرکر اسکوٹر لایا جائیگا لیکن چونکہ اسکوٹر جیجو کی تھی اس لئے ہم نے کہا ہم وہیں پاس کے دھابے پر لیٹتے ہوئے کل صبح اسکوٹر لیکر ہی آتے ہیں۔

یہ کہتے ہم وہاں رک تو گئے، لیکن جنگل میں ڈر بھی لگ رہا تھا پچاس ایک میٹر پر ایک دیہاتی مزدوروں کو ناشتہ پانی کروانے والا ہوٹل تھا ہم اسکوٹر دھکا دیتے وہاں پہنچے۔ ان ایام چوری چکاری عموما نا ہونے کے برابر تھی۔ ہوٹل کیا تھا ایک کھلی ہوئی جھونپڑی تھی دو ٹیل اور چار لمبے بینچ پڑے ہوئے تھے۔ اندر کی طرف لکڑی آگ والا کچن تھا کچھ برتن تھے۔ دور دور تک انسان کا نام و نشان تک نہ تھا ،کسی جنگلی چیتے بھیڑئے کے ڈر کے باوجود نیند کا غلبہ تھا۔ ہم نے دو ٹیبل ملاکر اسی پر بے سدھ سوگئے۔ بھینی بھینی خوشبو سے آنکھ کھلی تو سورج نکل چکا تھا اور مزدوروں کی دھیمی دھیمی آوازیں بھی آرہی تھیں۔ ہم مکمل جاگ کر ٹیبل سے اترے، یہ دیکھ کر جہاں ہکا بکا بھی ہوئے، وہیں مارے شرم سے خجل بھی رہے۔

دراصل وہ ھندو بھائی برہمن جسکا ہوٹل تھا اس نے ہمیں جگانے کے بجائے، لمبے بنچ باہر کھلے درختوں کی چھاؤں میں رکھے، صبح صبح مزدوری پر جانے والے مزدوروں کو ناشتہ چائے دئے، وہ لوگ پلیٹ ہاتھوں میں پکڑے ناشتہ کھائے جارہے تھے۔ ہم نے اٹھ کر ہوٹل والے سے معذرت کرنا چاہی لیکن اس نے لوٹے میں پانی دیتے ہوئے تحکمانہ لہجے میں کہا، پہلے ہاتھ منھ دھوکر ناشتہ کرلو پھر بات کرتے ہیں۔ آج جب ہم اس واقعہ پر سوچتے ہیں،کتنے حسین وہ دن تھے نہ مذہبی بھید بھاؤ تھا، نہ آپسی منافرت کا کوئی جذبہ، وہ چاہتا تو ہمیں صبح اٹھاکر اپنے گراہکوں کی بہتر خدمت کرسکتا تھا

لیکن تھکے ماندے مسلمان لڑکے کی نیند میں خلل ڈالنے کے بجائے اپنےمزدورپیشہ گراہکوں کو باہر ہی ناشتہ پانی دے، فارغ کرنا مناسب سمجھا۔ کاش کے وہ چار دہے قبل والے ہزاروں سال قبل کے، گنگا جمنی مختلف المذہبی سیکیولر اثاث و آپسی ھندو مسلم محبت کو، کوئی واپس معاشرے لائے۔ ان ایام مادی دولت کا فقدان تھا، لیکن آپسی ھندو مسلم محبت ،عزت کی دولت کی فراوانی تھی۔ آپسی بھید بھاؤ منافرت دور دور تک دکھائی نہ دیتی تھی۔ کاش کہ امن و سکون چین وآشتی والے وہ دن لوٹ آئیں اور وہ ہزاروں سال قبل کی گنگا جمنی مختلف المذہبی محبت، چاہت دوبارہ معاشرے میں زندہ ہوجائے۔کیا یہ ممکن ہے؟ واللہ الموافق بالتوفیق الا باللہ

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں