136

اہل کتاب کی معاشرت

اہل کتاب کی معاشرت

از قلم: ثناء اکرم ملہی

کسی معاشرے میں رہتے ہوئے اگر ہم دوسرے انسانوں کی خوشی غمی میں شریک نہ ہوں تو معاشرہ مکمل نہیں ہوتا کسی بھی معاشرے کی ترقی کا انحصار اس کے افراد کی آپس میں مربوط زنجیروں کے تعلق سے ہے۔ جس قدر مضبوطی سے زنجیریں ایک دوسرے سے باہم جڑی ہوئ ہوں گی اس قدر معاشرے میں انسانیت کی بقا رہے گی تہوار ہر تہذیب کا حصہ رہے ہیں، مگر تہوار کا مذہب سے بڑا گہرا تعلق ہوتا ہے

۔ اسلام نے عیدین سے مسلمانوں کی زندگیوں میں جس طرح خوشی بخشی ہے۔ اسی طرح اہل کتاب کے تہوار بھی اسلامی معاشرے میں رائج ہیں یہی وجہ ہے کہ اہل کتاب کے ساتھ اسلام نے دکھ سکھ تہواروں اور میل جول کے طریقے بتا دیے ہیں تاکہ حدود اسلام سے کسی طور پر تجاوز نہ ہو اور حسن معاشرت بھی قائم رہے اہل کتاب کے علاوہ دیگر مذاہب ہمارے معاشرے میں رہتے ہیں جن میں عیسائی مذہب زیادہ ہے

۔چونکہ اسلام کے نقطہ نظر سے عیسائی برادری کو مکمل تحفظ اور حقوق دیئے گئے ہیں اور اس کے ساتھ ہی پاکستانی مسلمان خوبصورت دین سے جڑے ہونے کی بدولت انسانیت کا اصل باخوبی محسوس کرتے ہیں حدیث مبارک میں مسلمانوں کا اہل کتاب (عیسائی مزہب کے لوگ) سے ملنے اور مکمل سلام کرنے کے بارے میں بیان آتا ہے ۔

*غیرمسلموں کو سلام کرنے میں اگر ابتداء کی جائے یا انہیں مخاطب کیا جائے تو السلام علیکم کےبجائے والسلام علی من اتبع الھدی کہنا چاہئے*۔
حدیث میں بادشاہوں کے نام جو خطوط لکھے تھے ان میں انہی الفاظ کے ساتھ مخاطب کیا گیا تھا’والسلام علی من اتبع الھدی(بخاری کتاب یدء الوحی) یعنی سلامتی ہو اس شخص پر جس نے ہدایت کی پیروی کی.
اس طرح مسلمانوں کو اہل کتاب کی دعوت قبول کرنے اور ان کی خوشی غم میں شریک ہونے کے متعلق اور ان کے گھر سے کھانوں کے متعلق قرآن مجید فرقان حمید نے واضح کر دیا ہے کہ اہل کتاب کے حلال کھانوں کو کھا سکتے ہیں

آیت: (الْیَوْمَ اٴُحِلَّ لَکُمُ الطَّیِّباتُ وَ طَعامُ الَّذینَ اٴُوتُوا الْکِتابَ حِلٌّ لَکُمْ وَ طَعامُکُمْ حِلٌّ لَہُمْ) ۔
ترجمہ:آج کے دن سے پاکیزہ چیزیں تمھارے لیے حلال ہوگئی ہیں اور اہل کتاب کے کھانے تمھارے لیے اور تمھارے کھانے ان کے لیے حلال.
اسلام اہل کتاب کے ساتھ رہنے اور دعوت وطعام میل جول اور سلام کرنے کو جس طرح واضح کرتا ہے اس سے نہ صرف حسن معاشرت قائم رہتی ہے بلکہ ضابطہ حیات ترقی کرتا ہے ۔ اسی طرح اہل کتاب کے تہوار اور خوشیوں میں شریک ہونا اور دعوتوں کو قبول کرنا بالکل درست فضل ہے بشرطیکہ وہاں پر شرک باللہ کا کوئی عنصر موجود نہ ہو .مگر 25 دسمبر کرسمس ڈے کو پاکستان کے تمام چھوٹے بڑے شہروں میں موجود چرچ کھولے جاتے ہیں ہیں

عیسائی برادری کو مکمل تحفظ کے ساتھ تہوار منانے دیے جاتے ہیں جو کہ ملک پاکستان کی ذمہ داری ہے اس دن بہت سے مسلمان نوجوان بزرگ بڑے اور بچے کرسمس ڈے میں شریک ہو کر خوشیاں مناتے ہوئے اور شرک باللہ کی طرف راغب نظر آتے ہیں۔ اہل کتاب کے اس تہوار کا مطلب ہے کہ *پچیس دسمبر کو اللہ نے حضرت عیسی کو جنم دیا نعوذ باللہ* کچھ عیسائی برادری میں اس دن کو اس طور پر منایا جاتا ہے کے حضرت عیسی کو نبوت ملی کچھ جگہوں پر مانا جاتا ہے کہ اس نے حضرت عیسی کو اٹھا لیا گیا ہیپی کرسمس اور دیگر اس طرح کے جملے یا کرسمس ڈے کہنا سب شرک باللہ کی ضمانت ہے۔ چونکہ پاکستان امن کا خطہ ہے اقلیتوں کو تحفظ دینا ہماری آئندہ ذمہ داری کے ساتھ ساتھ بنیادی حقوق میں سے ہے۔ کرسمس کے موقع پر ہنسی مزاق یا دوستی تعلق داری میں شرک کو فروغ نہ دیں ۔
Stop to say happy Christmas.
Stop to say merry Christmas.
خیال رہے کہ شرک نا قابل معافی گناہ ہے ۔ ہنسی مزاق میں کیا جانیوالا شرک بھی قابل معافی نہیں۔ لہزا دوسروں کو بھی اور خود کو بھی ایسے قبیح جملے کہنے سے بچائیں کیونکہ،
قُلۡ ہُوَ اللّٰہُ اَحَدٌ ۔
اللہ کی واحدانیت کے تذکرے کے بعد واضح کرتے ہیں کہ
لَمۡ یَلِدۡ وَ لَمۡ یُوۡلَدۡ ۔
نہ اس نے کسی کو جنا نہ اس کو کسی نے جنا ہے۔
اس کامل آیت کو اپنے دل میں اتارتے ہوے غور و فکر کریں اور اپنے حسن معاشرت کے ساتھ ایمان کو محفوظ رکھیں۔۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں