83

باب دوستی پر انتہائی اہم موقع پر جھڑپیں !

باب دوستی پر انتہائی اہم موقع پر جھڑپیں !

آج کی بات۔شاہ باباحبیب کیساتھ

قیام پاکستان کے بعد سے پاکستان اور افغانستان کے درمیان دونوں ممالک کے درمیان سرحد پر اکثر و بیشتر معمولی جھڑپیں ہوتی رہتی ہیں۔ کیونکہ افغان حکومت پاکستان اور افغانستان کے درمیان سرحد کو متنازعہ سرحد تسلیم کہتے ہیں ۔ اس سلسلے میں ماضی میں پشتونستان کے نام پر تحریکیں چلتی رہی ہیں ۔

سرد جنگ کے آخری مرحلہ پر روسی افواج کی افغانستان میں موجودگی کے دور میں ان سرحدی علاقوں میں افغان اور پاکستانی سکیورٹی فورسز کے درمیان مستقل تنا رعہ رہا۔ تاہم طالبان نے1996 میں افغانستان کا کنٹرول سنبھال لیا تو ابتدا میں خاموشی رہی، مگر اس کے بعد یہ تنازعہ اس وقت زندہ ہوا جب پاکستان نے طالبان سے ڈیورنڈ لائن کو مستقل سرحد تسلیم کرنے کا مطالبہ کیا ۔ جس پر دونوںو ممالک کے درمیان انتہائی قریبی دوستانہ اور برادرانہ تعلقات خراب ہوئے اور قمر الدین کے مقام پر جھڑپوں میں جانی نقصان بھی ہے

۔ کیونکہ وہاں پاکستان نے مستقل سرحد کی فوج آویزاں کی جس پر طالبان قیادت نے شدید ردعمل دیا ۔یہ سلسہ طالبان کی حکومت کے خاتمے کے بعد بھی جاری رہا ۔ جب ڈیورنڈ لائن پر خار دار تار لگانے کا فیصلہ کیا ، اور پاکستان کی جانب سے بعض دیہاتوں میں مردم شمار ی کرائی گئی تو شدید ترین ردعمل سامنے آیا ۔ یہ معدم شماری سرحد پر دو دیہاتوں کلی لقمان اور کلی جہانگیر کی وجہ سے ہوئیں ،

جن کو پاکستان نے اپنے ملک میں شامل کیا گیا۔ ان جھڑپوں میں دونوں اطراف سے جانی نقصان ہوا۔افغانستان پر گزشتہ برس طالبان کے قبضے کے بعد سرحدی تنازعات کم ہوئے مگر جلد ہی صورتحال خراب ہوئی ۔ جس کے بعد باب دوستی بند رہا پھر دونوں ممالک کے درمیان طویل مذاکرات کے بعد باب دوستی کھل گیا مگر اب پھر افغان طالبان اور پاکستانی سیکیورٹی فورسز کے درمیان جھڑپوں کے بعد دونوں ممالک کے درمیان بلوچستان کے ضلع چمن میں باب دوستی جمعرات کو بند کرد یا گیا ۔یہ جھڑپیں اڈا کہول اور کلی

حاجی باچا سمیت دو سے تین مقامات پر سرحدی تنازع کی بنیاد پر ہوئیں ہیں ۔جس سے افغانستان میں قندھار کے ضلع سپن بولدک میں کم از کم چھ افراد جان بحق جبکہ آٹھ افراد زخمی ہوئے۔ افغانستان میں طالبان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کا کہنا ہے کہ مقامی سطح پر پیدا ہونے والے اس مسئلے کے بعد دونوں جانب سے حکام کو اطلاع مل چکی ہے جس کے بعد اب حالات قابو میں ہیں۔ بقول ان کے افسوسناک بات ہے

کہ پاکستانی اہلکاروں کی جانب سے فائرنگ میں پہل کی گئی۔۔۔ ہم اس حوالے سے مکمل تحقیق کریں گے کہ یہ واقعہ کیوں پیش آیا۔جبکہ پاکستان کی جانب سے یہ کہا جارہا ہے ،کہ افغان طالبان پاکستانی حدود میں ایک سیکورٹی چیک پوسٹ بنا رہے تھے۔ پاکستانی فورسز کی جانب سے انھیں ایسا کرنے سے منع کیا گیا جس پر طالبان نے فائر کھول دیا اور اس پر پاکستانی فورسز نے جوابی فائرنگ کی۔دوسری جانب سے دیکھا جائے

تو اس طرح کے واقعات سے صرف اور صرف نقصان پشتونوں کو پہنچتا ہے ، کیونکہ سرحد کے دونوں طرف یہی لوگ آباد ہیں ۔ اس وقت سرحد پر دونوں جانب عام شہری جن میں مریض بھی شامل ہیں ۔ پریشان حال ہیں ۔ جبکہ سرحد پر ڈیلی ویجز پر کام کرنے والے بھی بڑی تعداد میں بیہ روزگار ہو چکے ہیں ۔ ان ڈیلی ویجیز پر کام کرنے والوں کا چولہ روزانہ کی بنیاد پر باب دوستی پر جلتا ہے ۔ لہذا دونوں جانب کی قیادت کو چاہیے

کہ وہ اس مسئلہ کا مستقل حل تلاش کریں کیونکہ روز روز کے جھڑپوں سے یہ معاملہ روز بروز خراب تر ہوتا جارہاہے ۔ ان جھڑپوں کا ایسے وقت میں ہونا کہ امریکی دھمکی کے باوجود پاکستان کے وزیراعظم نے روس کا دورہ کیا ۔ جس نے یوکرین پر حملہ کرکے نیٹو کو ہلا کر رکھ دیا ہے ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں