32

عدم اعتماد کا سر پرائز انجام !

عدم اعتماد کا سر پرائز انجام !

اپوزیشن قیادت عمران خان کو کرکٹ کا کھلاڑی سمجھتے ہوئے سیاست میں آسان ہدف سمجھتے رہے ہیں ،اپوزیشن نے وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتمادکی خطرناک چال چلی تھی ،مگروزیراعظم نے حزب اختلاف سے بہتر چال چلتے ہوئے قومی اسمبلی تحلیل کرکے عام الیکشن کا اعلان کردیا ہے

،اس وقت ملک کے سیاسی حالات جس نہج پر پہنچ چکے تھے، اس میں نئے الیکشن کے سوا اور کوئی بہتر حل نظر بھی نہیں آرہاتھا،یہ ایک اچھی بات ہے کہ عوام سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا گیا کہ ساری جماعتیں الیکشن کے میدان میں اتریں اور اپنا زور بازو آزمائیں، عوام فیصلہ کریں گے کہ ان میں سے کسے اقتدار دینا ہے۔
اس میں شک نہیں کہ وزیراعظم نے قومی اسمبلی کے اسپیکر کے ذریعے جس طرح تحریک عدم اعتماد ناکام بنائی، کوئی آئیڈیل صورت حال نہیں ہے، تاہم وزیر اعظم کاجس طرح کی اپوزیشن سے واسط پڑا ہے، اس کے ساتھ ان ہی کی زبان بولنا اور ان ہی کی طر ح سیاسی چالوں کا سر پرائزجواب دینا ضروری تھا ،

حکومت نے اپوزیشن کو پارلیمانی سیاست میں عدم اعتماد کا سر پرائز جواب دیے کر لا جواب کردیا ہے ، یہ معاملہ اب پارلیمان سے سپریم کورٹ میں چلا گیا ہے، قومی اسمبلی میں اسپیکر کی رولنگ پر سپریم کورٹ میں بحث ہوگی،یہ بحث ہفتوں چل سکتی ہے اور چند دن میں کوئی فیصلہ بھی آسکتاہے ،سپریم کورٹ بھی ملک کے حالات کے پیش نظر نئے الیکشن کے انعقاد کو ہی ترجیح دے سکتی ہے

،کیونکہ جو تنازعہ ملک میں اٹھ کھڑا ہواہے ،یہ اتنا آسانی سے ٹلنے والا نہیں ہے۔
اپوزیشن قیادت آئین و قانون کی باتیں بہت کرتے ہیں،لیکن خود ہی آئین وقانون کی دھیجیاں بکھیرتے نظر آتے ہیں ، اپوزیشن جس طرح وزیراعظم عمران خان کی حکومت گرانے کی کوشش کررہی تھی، اس کی ملکی سیاسی تاریخ میں کوئی نظیر نہیں ملتی ہے، اپوزیشن وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتمادکا میاب بنانے کیلئے

تمام تر ہتھکنڈے استعمال کررہی تھی، ایک طرف سرعام ارکین اسمبلی کا بھائوتاوکیا جارہا تھا تو دوسری جانب جوڑ توڑ اپنے عروج پر تھا،ار کان پارلیمان کی بیس کروڑ سے پچیس کروڑ تک بولی لگا کر جس طرح سیاسی وفاداریاں تبدیل کروائی جارہی تھیں،اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ کل کلاں کوئی ملک دشمن پچاس کروڑ کی پیشکش کردے تو ارکان اسمبلی اسے بھی نہیںٹھکرائیں گے اور ملک کے خلاف کسی بھی سازش کا حصہ بن جائیں گے۔
یہ امر انتہائی باعث شرم ہے کہ ملکی سیاست میں حصول اقتدار کیلئے پیسہ اور خرید وفروخت کابازار سر عام لگایا جاتا ہے ،اس بازار میں پیسہ کے زور پر بکنے اور خریدنے والے دونوں سر عام ایک جیسے جرم کا ارتکاب کرتے ہیں،دونوں کو ہی یکساں سزا ملنی چاہیے، لیکن ہمارے سیاسی کلچر میں ایسے لوگوں کو سزادینا

تو درکنار برا بھلا تک نہیں کہاجاتا،اُلٹاانہیں دانش مند اور دوراندیش ماتے ہوئے لوگ ان کے ڈیروں پر حاضری دیتے ہیں اور ان سے سیاست کا درس لیتے ہیں،اس مفادپرست سیاست کی حوصلہ افزائی کا نتیجہ ہے کہ عوام کے نام پر منتخب ہونے والے ار کان اپنے ضمیروں کا سودا کھلے عام کرنے میں کو ئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے ہیں ،عوام جب تک انکا مکمل طور پر بائی کاٹ نہیں کریں گے ،یہ ایسے ہی اپنے ضمیروں کا سودا کرکے عوام کے ووٹ کی تزلیل کرتے رہیں گے۔
آخرعوام کب

تک سیاست میں ہونے والی کرپشن نظر انداز کرتے رہیں گے ،عوام کو دیانتدار قیادت کا انتخاب کرنا ہو گا ،عوام کو دیکھنا ہو گا کہ ملک کی سیاسی قیادت میں کون ایماندار ی کے ساتھ عوام کا خیر خواہ ہے اور کون عوام کوصرف اپنے مفاد کے حصول کیلئے استعمال کررہا ہے ،موجودہ حالات میں دوسیاسی دھڑے دو مختلف نظریات کی ترجمانی کرتے نظر آتے ہیں ، ایک طرف عمران خان واضح طور پر مغرب کے

خلاف موقف پر ڈٹے ہیںتو دوسری جانب اپوزیشن قیادت زور شور سے مغربی حمایت کی بانسری بجارہے ہیں،اس سے سماج واضح طور پر دو طبقات میں تقسیم ہو رہا ہے ،یہ ہمارے سیاسی رہنمائوں پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ اپنے سیاسی بنانیے سے قوم میں تقسیم کا بیج بونے سے اجتناب کریں ،سیاسی قیادت کو قومی حمیت کا احساس کرتے ہوئے اپنے الفاظ کے چنائو کے ساتھ اپنے عمل میں احتیاط سے کام لینا چاہئے،ورنہ یہ بڑھتا سیاسی انتشار سب کچھ اپنے ساتھ بہا کر لے جائے گااور کسی کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا۔
حکومت اور اپوزیشن کو ہوش کے ناخن لیتے ہوئے تصادم کی سیاست سے گریز کر نا چاہئے ،سیاسی قائدین نے سیاسی انتشار کے باعث ہی پارلیمانی معاملہ عدالت میں پہنچا دیا ہے ، اس معاملے کا عدالت عظمیٰ کیا فیصلہ کرے گی، اس بارے میں ابھی کچھ بھی نہیں کہا جا سکتا ہے، عدالت عظمیٰ کے سامنے ابھی اپنے کئی چیلنجز ہیں، وہ سیاست میں مزید الجھنا نہیں چاہیں گے ،تاہم اس وقت سیاسی قیادت نے جو حالات پیدا کر دیے گئے ہیں، وہ اس کے ہی متقاضی ہیں کہ ملک بھر میں نئے انتخابات جلد از

جلد کرائے جائیں ،تاکہ اس سیاسی وآئینی بحران سے باہر نکلا جاسکے ،میرے خیال میں حزب اختلاف قیادت نے حکومت جلدی گرانے کے چکر میں تحریک عدم اعتماد لا کر ایک بڑی غلطی کی ہے ، انہیں اگلے الیکشن کا انتظار کرنا چاہیے تھا،اپوزیشن قیادت اچھی طرح جان چکی ہے کہ سازش کا شکار ہوگئی ہے

، اپوزیشن کی تحریک عد اعتماد کا سر پرائز انجام ہو چکا ہے ،اس لیے بہتر ہوگا کہ اپوزیشن سپریم کورٹ کے ذریعے اسپیکر کی رولنگ مسترد کرانے کے بجائے نئے الیکشن کی جانب چلی جائے ،یہ اپوزیشن کے ساتھ ملک وقوم کے حق میں بھی بہتر ہوگا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں