36

کیا نکاح ثانی معیوب عمل ہے؟

کیا نکاح ثانی معیوب عمل ہے؟

فقط
احقر
محمد فاروق شاہ بندری

کیا نکاح ثانی معیوب عمل ہے؟
۔ نقاش نائطی
۔ +966562677707

اسلام میں ایک سے زائد شادی کا رواج عام سے بات تھی۔ ایک لاکھ چوبیس ہزار صحابہ کرام میں بہت کم صحابہ ایسے ملتے ہیں جنہوں نے ایک ہی شادی پر اکتفا یا قناعت کی ہو۔اور شادی کے لئے عمر کی قید بالکل ہی نہی ہے۔ خصوصا بیوی کی وفات کے بعد، عمر کو نہ دیکھتے ہوئے، ہر کسی کو دوسری شادی کرنی ہی چاہئیے

کیونکہ شہوانی خواہشات سے بھی پرے انسانی ذکر و انث کے بہت سے تقاضے و ضروریات ہوتے ہیں جو حضرت انسان، اپنے شریک حیات ہی سے بے جھجک کہا کرتے ہیں خصوصا بڑھاپے میں جب جنسی خواہشات دم توڑ جاتی ہیں تو توضیع وقت کے لئے، ہر کسی کو ایک ساتھی کی ضرورت پڑتی ہی ہے
والدین کی خدمات کے زمرے میں یہ بات عام طور پر کہی جاتی ہے کہ اپنے بوڑھے والدین میں، جو کوئی بھی زندہ ہو، تو انکی معاشرتی ضروریات پوری کرنے سے اہم،کچھ وقت ان کے ساتھ بتانا، ان کے ساتھ بیٹھ کر باتیں کرنا، انکے بڑھاپے میں انہیں سکوں بہم پہنچانے کا سب سے بڑا اور اہم ذریعہ ہوا کرتا ہے۔اور آج کی جدت پسند جوان نسل کے پاس،اپنے بوڑھے والدین کو دینے وقت ہی کہ کمی ہوتی ہے۔

آج کل کے مایکرو فیملیز معاشرے میں، اپنی بیوی بچوں کے ساتھ محو مصروف رہتے پس منظر میں، مملکت سعودی عرب میں رائج ایک رواج قابل تقلید ہے۔ بیاہ کر الگ الگ اپنی طرز معاشرت جی رہی مختلف اولاد، عموما ہفتہ کا ایک دن اپنے بوڑھے والدین کے ساتھ خوش گپیوں میں گزارا کرتے ہیں۔ تصور کیجئے لمبے عرصے تک ساتھ جینے ساتھ مرنے کی قسمیں کھانے والوں میں سے،ایک اپنے مالک حقیقی کی دعوت پر لبیک کہتے

، اس دار فانی کو کوچ کرجاتا ہے، دوسرے کے لئے تمام تر دنیوی رعنایاں بھی ھیج تر ہوتے ہوئے، پتہ نہیں مرنے سے پہلے والی کتنی لمبی زندگانی اکیلے کاٹنا اس کے لئے کتنا دشوار گزار ہوتا ہوگا؟مرد آہن تو عموما دوسری شادی کرلیتے ہیں، لیکن عین جوانی میں بیواہ ہوئی صنف نازک کو، انکی اپنی اولاد کی پرورش کے بہانے، زندگی بھر تنہائی والی زندگی کاٹنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ کیا جوان بیوہ کے جذبات نہیں ہوتے؟ کیا

اسے بھی معاشرے کی رنگ رلیوں کے مزے اڑانے کی تڑپ نہیں ہوتی ہے؟ پھر کیوں صنف نازک ہی پر اکیلے پن کی لمبی زندگانی جینے کے پہاڑ توڑے جاتے ہیں؟ سعودی عرب کا ایک رواج یہ بھی قابل تقلید عمل ہے ، جہاں پر تیز تر رفتار گاڑی چلاتے پس منظر میں حوادث کے باعث جوان مرد اموات عام سی بات ہوتی ہے۔ ایسے کسی جوان سال کسی شخص کی موت بعد، کچھ دنوں کے اندر، اعزہ و اقرباء متوفی گھر جمع ہوتے ہیں

اور متوفی کے برادران، متوفی کی اولاد کو باہم مشوروں سے،آپس میں بانٹ، انہیں گود لئے، اپنی اولاد سے زیادہ عزیز رکھے، انکی پرورش کرتے پائے جاتے ہیں اور جوان سال بیوہ کو، متوفی کی اولاد پرورش کی ذمہ داری سے سبکدوش کئے، کسی اور سے نکاح کر، اسکا اپنا گھر بسانے، اسے آزاد کردیئے ہیں۔کاش کہ مسلم معاشرے میں بھی دوسرا بیاہ معیوب نہ سمجھا جاتا تو معاشرے کی بیوائیں بھی، کسی مرد آہن کی دوسری منکوحہ بنی معاشرے کی خوش گپیوں سے لطف اندوز ہورہی ہوتیں
زندگی کی پہلی شادی کے لئے،صنف نازک ہو کہ مرد آہن، ہر کوئی پری جمال، معشیت کا شہنشاء تونگر ترین، بہترین سے بہترین رخ ثانی کا متلاشی ہوتا ہے، لیکن نکاح ثانی یا ثالث کے لئے، ایسی کسی شروط سے مبراء کچھ کمیوں خامیوں والی باکرہ کے ساتھ ہی ساتھ، بیوہ کے لئے، زندگی کی رعنائیاں سمیٹنے کے مواقع، انہیں مواقع فراہم کرسکتی ہیں۔ اس لئے، کثرت زواج تناظر میں اسوئے رسولﷺ پر عمل پیرائی ہی میں صالح معاشرے کی ضمان پائی جاتی ہے۔آج ہمارے ایک پیران حال قلمکار عزیر جیلانی کولا کے،

وفات زوجہ پر کچھ مہینوں بعد، عقد نکاح ثانی کی گردش کرتی تصویروں نے، انہیں اس سنت رسول ﷺ کو معاشرے میں زندہ کرنے پر مبارکباد دیتے، اس موضوع پر اپنی کچھ آراء کے ساتھ، تاریخ اسلامی کے اس بند دروازے کو، معاشرے کے لئے وا کرنے کی نیت سے، اپنے افکار کے ساتھ،اپنے قارئین کے ذہن و تفکر دستک دینے کی ہمت ہم نے جٹائی ہے۔عقد ثانی کو معاشرے کے لئے معیوب سمجھتے اور وفاشعار بیوی کے لئے اسے ایک گالی کے طور لینے والے ہمارے افکار و نظریات کو بدلنے کی ضرورت ہے

۔ہمارے رسول مجتبی خاتم الانبیاء محمد مصطفیﷺ کے، عمل کر دکھائی سنت کو، زندہ کرتے ہوئے، معاشرے میں پنپ رہی کمیوں خامیوں کودور کرتے ہوئے، ہمارے مسلم معاشرے کو سلف و صالحین والے اسلامی معاشرے میں ڈھالنے کی ضرورت ہے۔نکاح کے جس پاکیزہ رشتے کو، مسلم معاشرے نے، اپنی انانئت، جھوٹے زعم، و کرو فر کے چلتے، مختلف رسوم و رواج کا شکار بنا، نکاح کو آج مسلم معاشرے میں مشکل ترین امر بنا دیا ہے،

کہ آج کے مسلم معاشرے کی جوان سال اعلی تعلیم یافتہ لڑکیاں، جہیز جوڑے کی رسم، نساء والدین پر ولیمہ کاغیر شرعی بوجھ، نام ونمود ظاہر کرتے، بڑے بڑے شادی ہال کو بک کرنے کی ہوڑ، جیسے مختلف رسوم و رواج میں جکڑی شادی شدہ، عزت والی زندگی حاصل ہو پانا ، اپنے لئے ناممکن تصور کرتے ہوئے ہی،آج کی اعلی تعلیم یافتہ مسلم دوشیزائیں، اپنے لئے خود اپنا رخ ثانی تلاشتے ہوئے، اپنی دائمی بیس تیس سالہ ازدواجی زندگی کے لئے، نہ صرف اپنی تمام تر دشواریوں تکلیفوں کے باوجود انکی پرورش تربیت کئے،

انہیں جوانی کی دہلیز تک پالنے پرورش کرنے والے والدین کو داغ مفارقت دئیے ،بلکہ اپنے دین اسلام تک کو خیر باد کہنے سے بھی نہیں چوکتی ہیں۔ صرف میریج رجسٹرار آفس کے جمع اعداد و شمار مطابق گذشتہ چند سالوں میں مسلم معاشرے کی 8 لاکھ جوان لڑکیاں، اپنے دین اسلام تک کو چھوڑ مرتد بنتے ہوئے ، اپنی آخرت تک کو صدا بگاڑ، غیر مسلم لڑکوں کے ساتھ اپنا گھر بساچکی ہیں تصور کیجئے

ان 8 لاکھ لڑکیوں کے والدین پر کیا گزری ہوگی جب انکی محنت کمائی سے پرورش پائی یہ جوان سال لڑکیاں اپنے ہی مسلم معاشرے کے آسان تر اسلامی شادی کو، مختلف رسوم و رواج کے بہانے، ان کے لئے انکی پہنچ سے دور ناممکن شادی بنانے والے تھیکے داران مسلم امہ کے لئے، لمحہ فکریہ چھوڑے، دین اسلام تک کو خیر بات وہ کہہ چکی ہیں کاش کہ اب بھی مسلم معاشرے کے نام نہاد ٹھیکیداروں کو ہوش آجائے

اور وہ مل بیٹھ صلاح و مشورہ کرتے ہوئے، اپنے رسول مجتبی خاتم الانبئاء ﷺ کے وقت کی آسان شادی کو، آج کے مسلم معاشرے کے لئے بھی آسان بناتے پائے جائیں اور باکرہ نساء کے ساتھ ہی ساتھ مطلقہ و بیوہ کے ساتھ عقد ثانی کے جذبے کو معاشرے میں عام کرتے ہوئے، آج کے ایک حد تک بدنام مسلم معاشرے کو، تمام تر معاشرتی برائیوں سے پاک و صاف صالح نیک معاشرہ میں تبدیل کرنے کی جستجو تو شروع کریں ۔ وما علینا الا البلاغ

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں