ملک بچانے کیلئے اکٹھے بیٹھنا ہی پڑے گا !
ملک کی موجودہ سیاسی صورتحال نے اخلاقی اقدار کا جنازہ نکال کے رکھ دیا ہے ، ہر کوئی آئین و قانون کی اپنی تشریح کر رہا ہے، اب بات صرف بیان بازی تک محدود نہیں رہی ہے،ملک بھر میںگرفتاریاں ، چھاپے اور سیاسی انتقام ایک معمول بن چکا ہے ، رہی سہی کسرآڈیو، وڈیو لیکس نے پوری کردی ہے، ایک کے بعد ایک لیکس سامنے آرہی ہے،اپنے مخالف کو نیچا دکھانے کا کوئی موقع ضائع نہیں کیاجارہا ہے ،اس سیاسی پوائنٹ سکورننگ نے ملکی معیشت کو تباہی کے داہنے پر لا کھڑا کیا ہے، ایک طرف ملک کے دیوالیہ ہونے کی باتیں کی جارہی ہیں تو دوسرجانب ملک کے اہم اداروں کو متنازعہ بنایا جارہا ہے ،اس محاذ آرائی میں ایسا معلوم ہو رہا ہے کہ انا کا طاقتور جن بو تل سے باہر آچکا ہے اور اب اسے قید کرنے کی کسی میں جرأت نہیں رہی ہے، ایسے میں اصلاح احوال کی بات نقار خانہ میں طو کی آواز ہی معلوم ہوتی ہے۔
اس میں شک نہیں کہ اس وقت سیاسی قیادت میں اتفاق رائے پیدا کرنا ملکی سلامتی کیلئے ناگزیز ہو چکا ہے،سیاست میں سیاسی اختلاف ذاتی اختلافات میں تبدیل ہوتے جارہے ہیں ،سیاسی قیادت ایک دوسرے سے بات کرنا تو درکنار ایک دوسرے کو دیکھنے کی بھی روادار نہیں ہے ، ایک دوسرے پر کراس لگانے کی باتیں کی جارہی ہیں ،جبکہ جمہوریت میں کسی کے نام پر کوئی کراس لگا سکتا ہے نہ ہی کوئی کسی کو عوام کی حمایت کے ساتھ اقتدار میں آنے سے روک سکتا ہے، وہ ہی اقتدار میں آئے گاکہ جس کا انتخاب عوام کریں گے، اس سے قبل ایسی باتیں محترمہ بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف بارے بھی کہیں جاتی رہی ہیں اور اب عمران خان کے بارے میں کی جارہی ہیں ،کل تک جو خود انتقامی سیاست کا نشانہ بن رہے تھے ، آج اپنے مخالفین کو انتقامی سیاست کا نشانہ بنانے پر تلے نظر آتے ہیں،اس سے کوئی سیاست سے مائنس تو نہیں گا ،لیکن جمہوریت چلتی پٹری سے ضرور اتارنے کی کوشش کی جاسکتی ہے ۔
یہ حقیقت ہے کی سیاستدانوں کے باہمی تصادم کے باعث پہلے بھی جمہوریت ڈی ریل ہوتی رہی ہے اور اس بار بھی وہی پرانے حالات پیدا کیے جارہے ہیں ،تاہم سیاسی قیادت نے اپنے ماضی سے کچھ سیکھا نہ سیکھنے کیلئے تیار ہے ،سیاسی قیادت ایک بار پھر اپنی پرانی غلطیادہرائے جارہے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اپنے اقتدار کو بچاکر اپنے مخالف کو میدان سے نکال باہر کریں گے ، عوام کی مرضی کے بغیر ایسا کبھی نہیں ہو پا ئے گا ،یہ بات کوئی مانے نہ مانے ،مگر تحریک انصاف قیادت نہ صرف عوام میں انتہائی مقبول ہے ،بلکہ شہرت کی بلندیوں کو بھی چھورہی ہے ،اس مقبولیت کو انتقامی سیاست سے کم کیا جاسکتا ہے نہ گرفتار یا نا اہل کرکے سیاست سے نکالا جاسکتا ہے ،اس لیے حکمران اتحاد کو چاہئے کہ اپنے دور مذحمت کو یاد رکھتے ہوئے منفی ہتھکنڈے استعمال کرنے کے بجائے مثبت رویہ اختیار کرے ، وزیراعظم شہباز شریف کوچاہئے کہ وہ عمران خان سمیت تحریک انصاف کے تمام ارکان قومی اسمبلی کو پارلیمنٹ کے اجلاس میں شرکت کی دعوت دیں اور اس اجلاس میں سیاسی قیادت اتفاق رائے عام انتخابات کی تاریخ کا اعلان کرے، اگر ایسا نہ کیا گیا تو ملک میں بے چینی و انتشار بڑھے گا اور ملک مزید بحرانوں کی دلدل میں دھنستا ہی چلا جائے گا۔
یہ ملک ہے تو سیاست بھی چلتی رہے گی ،اگر ملک نہیں تو کچھ بھی نہیں بچے گا ،یہ وقت ملکی مفاد میں اختلافات بڑھانے کا نہیں ،باہمی اتفاق رائے پیدا کرنے کا ہے ،لیکن تالی ایک ہاتھ سے نہیں بجتی ہے ،اس کیلئے ضروری ہے کہ دونو ں جانب احساس جنم لے ،اگر ایک مفاہمت کا ہاتھ بڑے تو دوسری جانب اسے قبول کرنے والا بھی ہونا چاہئے ،اس حوالے سے عمران خان کا بیان حوصلہ افزا ہے کہ میں سب سے سمجھوتے کیلئے تیار ہوں ، ملک میں جب تک سیاسی استحکام نہیں ہو گا ،معاشی استحکام بھی نہیں آئے گا ،آج پا کستان جہاں کھڑا ہے ،سب کو اکٹھا ہونا ہی پڑے گا ، مل کر بیٹھنا ہی پڑے گا،مگر دیکھنے میں آرہا ہے کہ ہمارے ہاں اس قسم کے احساسات کا استقبال کرنے کے بجائے ،انہیں رد کرنے پر زور صرف کیا جارہا ہے ،جلتی پر گرفتاری کا تیل چھڑکا کر مزید آگ بھڑکائی جارہی ہے ،اس بھڑکتی آگ سے نقصان کسی ایک کا نہیں ،سب کا ہی ہو گا ،اس لیے انتشار کی آگ پر انتقام کا تیل چھڑکنے کے بجائے مفاہمت کا پانی چھڑکنے کی اشد ضرورت ہے،سیاسی قیادت کے پاس ابھی وقت ہے کہ ملک کو بچانے کیلئے ایک ساتھ مل بیٹھیں ،یہ وقت نکل گیاتو پھر کسی کے ہاتھ کچھ بھی نہیں آئے گا اور سب خالی ہاتھ ہی ملتے رہ جائیں گے۔