سیاسی منظر بدل بھی سکتا ہے !
ملک میں آٹھ فروری کو عام انتخابات کے اعلان کے بعد ایم کیو ایم اور مسلم لیگ( ن ) میں اتحاد کا فوٹو سیشن ٹھرے پانی میں پتھر بن کے جا گرا ہے ، مسلم لیگ( ن )انتخابی سر گرمیوں میں تیزی اور ہلچل پیدا کرنے کیلئے بدستور سر گرم عمل ہے ،جبکہ پیپلز پارٹی تاحال ماضی کے حلیفوں کو آئندہ الیکشن میںحریف کی نظر سے دیکھے جارہی ہے ،مسلم لیگ( ن)کیلئے بظاہر حالات غیر معمولی طور پر موافق اورپر سکون نظر آرہے ہیں ،لیکن اس سکون میںنجانے کیوں ایسا لگ رہا ہے کہ اس کے ٹو ٹتے ہی سارا منظر بدل بھی سکتا ہے ؟
اِس ملک میں کسی وقت کچھ بھی ہو سکتا ہے ، اچانک سیاسی منظر نامہ بدل سکتا ہے ، تاہم اس وقت ملک جن مسائل میں گھرا ہے ،ان سے نکلنے کے لئے ملک میں سیاسی استحکام اشد ضروری ہے ،یہ سیاسی استحکام آزادانہ منصفانہ انتخابات سے ہی آئے گا، اس آزادانہ منصفانہ انتخابات کیلئے تمام سیاسی جماعتوں کو یکساں مواقع ملنے چاہئے ،لیکن یہاں ایک مخصوص جماعت کیلئے انتخابی میدان صاف ہی نہیں کیا جارہا
،بلکہ انتخابات میں کامیاب بنانے کا اہتمام بھی کیا جارہا ہے ، اس حوالے سے پیپلزپارٹی کے صدر آصف علی زرداری نے جہاں واضح موقف اختیار کیا ہے، وہاں اس کی تائید بلاول بھٹو زرداری کے بیانات سے بھی ہورہی ہے، وہ صرف اپنے لئے لیول پلیئنگ فیلڈ مانگ کر امتیازی سلوک کی نشاندہی نہیں کر رہے ہیں، بلکہ دیگر سیاسی جماعتوں بشمول تحریک انصاف کے لئے بھی یکساں مواقع کا مطالبہ کررہے ہیں۔
اس وقت سیاسی میدان میں انتخابی معرکہ کیلئے جو اتحاد بنائے جارہے ہیں، اْس پر کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہے، یہ ہر سیاسی جماعت کا حق ہے ،پی ٹی آئی اور پیپلزپارٹی نہ صرف اسے تسلیم کرتی ہیں ،بلکہ مسلم لیگ (ن) مخالف سیاسی جماعتوں سے اتحاد کرنے کا عندیہ بھی دیے رہی ہیں، تاکہ انتخابات میں زیادہ سے زیادہ نشستیں حاصل کی جا سکیں،اس حد تک تو بات سیاسی ہے اور کسی کو اعتراض بھی نہیں ہونا چاہئے، تاہم جیسا کہ کچھ مسلم لیگی رہنما اور سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی بھی کہہ رہے ہیں کہ تحریک انصاف ایک حقیقت ہے، اگراْسے ہی انتخابات سے باہر رکھا گیا تو پھرسارا ہی انتخابی عمل اپنی ساکھ کھو دے گا۔
مسلم لیگ( ن )قیادت جتنا مرضی اپنی انتخابی مہم کا میاب بنانے کیلئے ایک سے بڑھ کر ایک بیانیہ بنائے ، تحریک انصاف قیادت پر الزام تراشیاں کرے ،سیاسی میدان میں مقابلہ کرنے کے لئے ایسے بیانات دیئے ہی جاتے ہیں ، لیکن ایسانہیں ہو سکتا کہ ایک سیاسی جماعت انتخابی سرگرمیوں کے لئے توبالکل آزاد رہے
اور دوسری کو قانون کے پہرے میں جکڑ دیا جائے ، یہ اس ملک کا قانون ہی کہتا ہے کہ جب تک کسی جماعت پر پابندی نہ لگائی جائے یا عدالت کی طرف سے کسی کو انتخابات میں حصہ لینے کے لئے نااہل نہ قرار دیا جائے، اْس وقت تک اْسے سیاست سے مائنس کیا جاسکتا ہے نہ ہی انتخابی عمل سے باہر کیا جا سکتا ہے۔
اہل سیاست کو اب مائنس پلس کے کھیل تماشے سے باہر نکل کر عوام کی عدالت میں پیش ہونا چاہئے اور عوام کے سامنے اپنا منشور ،اپنا بیانیہ رکھناچاہیے ، میاںنواز شریف بھی اپنا بیانیہ لے کر عوام کے پاس جائیں تو کوئی بعید نہیںکہ عوام انہیں اپنے مینڈیٹ سے نواز دیے، لیکن اگر یہ تاثر قائم رہا کہ انہیںزبردستی لایا جا رہا ہے اور اس کے لئے باقی جماعتوں کو برابری کے مواقع نہیں دیئے جا رہے تو اِس سے سیاسی بحران ختم نہیں ہو گا ،بلکہ مزید بڑھے گا،اس لیے میاںنواز شریف کو ایسا تاثر دور کرنا چاہئے
،اس کا واحد طریقہ ہے کہ وہ بھی ملک میںآزادانہ شفاف انتخابات کا مطالبہ کریں،وہ جب طالبہ کریں گے تو یہ بات خودبخود یقینی ہو جائے گی کہ تمام سیاسی جماعتوں کو انتخابی مہم چلانے اور انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت ملنی چاہئے۔
مسلم لیگ( ن ) قیادت کی جانب سے اچھی تجویز آئی تھی کہ وہ سیاسی جماعتوں سے رابطے کرنا چاہتے ہیں،اس بات کو بھی سراہا گیا کہ میاں نواز شریف تحریک انصاف کی قیادت کو بھی ملنے کی دعوت دیں گے، اگرچہ تحریک انصاف نے اْن کے ساتھ ملاقات کی تجویز کو رد کر دیا ہے، تاہم اگر وہ اْس تجویز کی تائید کریں ،جو کہ صدرِ مملکت نے نگران وزیراعظم کو لکھے گئے خط میں دی ہے کہ تحریک انصاف کے خدشات دور کیے جائیںتو سیاسی منظر نامہ بدل بھی سکتا ہے،دوسری صورت میں متنازع انتخابی نتائج کے باعث ملک ایک نہ ختم ہونے والی افراتفری کا شکار ہوتا دکھائی دیے رہا ہے۔