عوامی مفاد سب سے مقدم ہے !
ملک میں سیاسی عدم استحکام بڑھتا ہی جارہا ہے اور حکومت سیاسی استحکام لانے کے بجائے سیاسی عدم استحکام میں ہی اضافہ کررہی ہے ، ایک طرف تحریک انصاف پر پابندی لگانے کے اعلانات کررہی ہے تو دوسری جانب سپریم کورٹ کے فیصلے کو ماننے سے انکاری ہے ، الیکشن کمیشن بھی سپریم کے فیصلے پر عمل در آمد کر نے کے بجائے ٹال مٹول سے کام لے رہا ہے ، اجلاس پر اجلاس بلا ئے جارہا ہے
،لیکن سپریم کورٹ کا واضح فیصلہ سمجھ میں ہی نہیں آرہا ہے ، اس پر وزیردفاع خواجہ آصف کا کہنا ہے کہ جلد یا بدیر آئینی بریک ڈائون ہونے والا ہے ، اس کی تائد کرتے ہوئے تحریک انصاف کے رہنماحامد خان کا کہناہے کہ حکومت کی ایسی حرکتوں کی وجہ سے ہی ملک آئینی بریک ڈائون کی طرف جاسکتا ہے، حکومت ہر غیرآئینی حرکت کررہی ہے اور سپریم کورٹ کے فیصلوں پر عملدرآمد نہیں کررہی ہے ‘اگرسپریم کورٹ کے فیصلوں پر عملدرآمد نہیں ہوتا تو ملک میں آئینی نظام گرجائے گا۔
اس ملک میںجمہوریت چلے جانے کی کوئی فکر لاحق ہے نہ ہی آئینی نظام گرجانے کی کوئی پر یشانی ہے ، یہاں پر ہرکوئی اپنے اقتدار کو دوام دینے میں لگا ہے اور اس کیلئے سب کچھ دائو پر لگا ئے جارہا ہے ، ایک دوسرے سے ٹکرانے کے ساتھ اداروں کو بھی ایک دوسرے کے سامنے لا رہا ہے ،اور محاذ آرائی بڑھائے جا رہا ہے،
اس کے نتائج کیا نکلیں گے، اس سے قطع نظر آئین و قانون پامال کئے جارہا ہے اوراس کے بعد توقع رکھ رہا ہے کہ جمہوریت چلتی رہے گی اور کوئی آئینی بحران بھی نہیں آئے گا تو ایسا ہر گز نہیں ہے ، حکومت خود کو بچانے اور اقتدار کو چلانے کیلئے جو کچھ کررہی ہے ،اس کا خمیازہ سود سمیت بھگتنا ہی پڑے گا اور بہت جلد اقتدار سے نکلنا ہی پڑے گا ۔
اتحادی حکومت پرُ اعتماد ہے کہ وہ لانے والوں کے ساتھ ایک پیج پر ہیں اور اُن کے ہی اشاروں پر چل رہے ہیں تو انہیں کوئی پریشانی نہیں ہو گی ، جبکہ امر یکی ریٹنگ کمپنی فچ نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ اتحادی حکومت اپنی مدت پوری نہیں کر پائے گی اور زیادہ سے زیادہ سال ،ڈیڑھ سال تک ہی رہ پائے گی ،
لیکن حکومت کے وزراء بضد ہیںکہ ہمیں کوئی خطرہ نہیں ہے ، اتحادی حکومت اپنی مدت پوری کرے گی ، ہماری سیاست کے بارہویں کھلاڑی بفچ کی رپورٹ دیکھ کر خوش ہورہے ہیں ، انہیں اپنا مستقبل تابناک نظر آرہا ہوگا، لیکن یہاؓں کچھ بدلنے والا ہے نہ ہی اقتدار اتحادیوں کے ہاتھ سے نکلنے والا ہے ، حکومت آئینی و قانونی ترامیم لا کر اور ایڈ ہاک جج لگا کر اپنے گر د حصار مضبوط کیے جارہی ہے،لیکن بھول رہی ہے
کہ عوام کی حمایت کے بغیر سارے ہی حصار ٹوٹ کر بکھر جائیں گے۔ہمارے حکمرانوں نے تاریخ سے کوئی سبق حاصل کیانہ ہی اپنے ماضی سے کچھ سیکھا ہے ،بار بار وہی پرانی غلطیاں ہی دہرائے چلے جارہے ہیں ، پرانے فار مولے ہی آزمائے چلے جارہے ہیں ،ایک ہفتے سے وہی باتیں‘ جو ماضی میں کسی پارٹی پر پابندی لگانے سے پہلے کی جاتیں رہی ہیں اور عدالتی فیصلہ کے بعد کی جاتی رہی ہیں
،ایک بار پھر دہرائی جا رہی ہیں، وہی پرانی بڑکیں لگائی جارہی ہیں، کیو نکہ حکومت کا غیر جمہوری رویہ اپنانے اور آئین و قانون پا مال کر نے کا جھکا کھل چکا ہے، اس لیے بے دھڑک آٓزمایہ نسخہ ہی آ زمایا جارہا ہے اور سب کو ہی آگے لگایا جارہا ہے، بے شک آزما لیں،پرا نا حر بہ ہی دہرا لیں ،لیکن کل اور آج کا تھوڑا سا سا جائزہ بھی لے لیں ، اس بار لوگوں کے تیور بدلے ہوئے ہیں ، اس بار لوگ بہت زیادہ بھپرے ہوئے ہیں ، انہیں اب مزاحمت کے لیے سڑکوں پر دھرنے دینے اور ملک گیر تحریک چلانے کی بھی ضرورت نہیں رہی ہے، عام لوگوں کے اندر جب لاوا اتناپک جاتاہے تو مناسب وقت پر خود بخود ہی اُبل پڑتا ہے۔
اگر دیکھا جائے تو عوام کے سبر کا پیمانہ لبر یز ہوتا چلاجارہا ہے اور عوام کی بر داشت جواب دیتی جارہی ہے ، لیکن حکمران عوام کو بہلانے او بہکانے میں ہی لگے ہوئے ہیں ، حکمرانوں کو وقت کے بدلنے کا احساس ہے نہ ہی عوام کے بدلتے موڈ کا کچھ خیال ہے ، حکمران عوام سے اور عوام حکمرانوں سے بہت دور ہو چکے ہیں ، اس دوری کا خاتمہ کیے بغیر حکومت چلائی جاسکتی ہے نہ ہی ملک میں خوشحالی لائی جاسکتی ہے ،حکومت اور اربابِ اختیار کو چاہئے کہ جیسے اُنہوں نے خود کو بچانے اور اپنا اقتدار چلانے کیلئے مشکل فیصلے کیے، ویسے ہی سیاسی استحکام کو یقینی بنانے اور عوام کو راضی کر نے کیلئے کے لیے اپنی ذات سے اوپر اُٹھ کر عوام کے مفاد میں فیصلے کریں، کیو نکہ عوام کا مفا د ہی سب سے مقدم ہے۔