بھنور سے کشتی کو نکلا جائے ! 79

نئے انتخابات پر نئی سودے بازی!

نئے انتخابات پر نئی سودے بازی!

ملک میں ایک بار پھر نئے الیکشن کی گونج سنائی دینے لگی ہے ، ایک بار پھر نئے الیکشن کو ہی سارے مسائل کا حل قرار دیا جارہا ہے ، مولانا فضل الر حمن بار بار اصرار کررہے ہیں کہ ملک کے سارے بحرانوں کا واحدحل ہی نئے شفاف الیکشن ہیں ، لیکن شفاف الیکشن کون کرائے گا اور کیسے ہوں گے ، اس بارے کوئی بات ہی نہیں کررہا ہے جبکہ ہر بار الیکشن کرانے والوں کا کردار سب کے سامنے آتارہاہے ، اس پر امیر جماعت اسلامی حافظ نعم الر حمن نئے الیکشن کی باتیں کرنے والوں سے سوال کرر ہے ہیںکہ کیا پچھلے انتخابات کے فارم 45 موجود نہیں ہیں، اس انتخابات کو ہی درست کر نے کی کوشش کر نی چاہئے،نئے انتخابات پر تونئی سودے بازی کی ہی کوشش ہوگی تو پھر شفاف انتخابات کیسے ہو پائیں گے؟
اگر دیکھا جائے تو اس ملک میں کوئی شفاف انتخابات کرنا چاہتا ہے نہ ہی شفاف انتخابات کر انے کیلئے کبھی کوئی سنجیدگی کوشش کی جاتی رہی ہے ، یہ بار بار شفاف انتخابات کی گردان ماسوائے عوام کو بہلانے اور اپنے پیچھے لگانے کے کچھ بھی نہیں ہے ، یہ سارے اپوزیشن میں رہتے ہوئے شفاف انتخابات کی با تیں کرتے ہیں اور اقتدار میں آنے کے بعد شفاف انتخابات کیلئے قانون سازی کرنا اور نئے قوائد و ضوابط بنا نا ہی بھول جاتے ہیں، اگر کوئی ایک کوشش کر تا ہے تو اس کا ساتھ ہی کوئی نہیں دیتا ہے

، کیو نکہ اس ملک کے فیصلہ ساز ایسا کچھ کرنا ہی نہیں چاہتے ہیں ،وہ چاہتے ہیں کہ اقتدار بنانے اور گرانے میں اُن کاہی عمل دخل رہے ، اس لیے اب تک کچھ ہو پا یا ہے نہ ہی آئندہ کچھ ہوتا دکھائی دیے رہا ہے ، یہ دھاندلی زدہ الیکشن کا واویلا ایسے ہی چلتا رہے گا اور نئے شفاف الیکشن کا مطالبہ بھی ایسے ہی دہرایا جاتا رہے گا ، جبکہ ہر الیکشن کا فیصلہ عوام کے بجائے وہی کریں گے ،جوکہ اب تک کرتے آرہے ہیں۔
یہ کتنی عجب بات ہے کہ عوام کو طاقت کا سر چشمہ قرار دینے والے ہی عوام کو کمزور بنانے پر تلے ہوئے ہیں ، یہ عوام کو آزادانہ فیصلہ کا حق دیے رہے ہیں نہ ہی عوام کا فیصلہ مان رہے ہیں ، اُلٹاعوام مخالف فیصلوں میں سہولت کار ی کررہے ہیں اور سمجھ رہے ہیں کہ عوام نہیں جانتے ہیں ، عوام سب کچھ جانتے ہیں اور اپنی آنکھوں سے سب کچھ دیکھ بھی رہے ہیں ، اس لیے نہ صرف ان سے دور ہو رہے ہیں ،

بلکہ مایوس بھی ہو رہے ہیں،اس لیے ان سے چھٹکارہ چاہتے ہیں ، عوام کے اندر ان کے خلاف لاوا پک رہا ہے اور یہ کسی وقت بھی باہر نکل سکتا ہے ، اس کا اپوزیشن جماعتوں کوبخوبی اندازہ ہے ، اس لیے ہی حکومت مخالف صف بندیاںہورہی ہے ، احتجاجی تحریک اوراحتجاج و دھرنوں کے اعلانات ہورہے ہیں ، حکومت ناراض عوام کو منانے اور اپوزیشن کو اپنے ساتھ بیٹھانے کے بجائے مزحمت کی سیاست کو ہی فروغ دینے میں لگی ہوئی ہے ، اس کا حکومت کو نقصان ہورہا ہے اور اس کے خلاف عوام میں غم و غصہ بڑھتا ہی جارہا ہے ، حکومت کاخیال ہے کہ انہیں لانے والے ہی ان کا تحفظ بھی کریں گے

اور ان کے اقتدار کو بھی بچائیں گے تو یہ ان کی بھول ہے، ایسا ہر گز ہونے والا نہیں ہے، عوام کا موڈ بدلتے ہی مقتدرہ بھی اپنا موڈ بدلنے میں زیادہ دیر نہیں لگا ئیں گے ، اس کے ہلکے پھلکے آثار نظر آنے لگے ہیں ، سیاست کے آسماں پر گہرے بادل چھانے لگے ہیںاور ایسا لگ رہا ہے کہ جیسے کوئی بڑا طوفان آنے والا ہے؟
اس کی نشاندہی ہر کوئی کررہا ہے اور واضح طور پر بتا بھی رہا ہے کہ حالات خراب سے خراب تر ہوتے جارہے ہیں ، لیکن اس کا تدارک کر نے کیلئے کوئی پیش رفت نہیں کررہا ہے ، اگراب بھی معاملہ فہمی‘ فراست اور سیاسی سو جھ بوجھ سے حل نہ کیے گئے توسب کی ہی چھٹی ہوجائے گی، یہ افراتفری اور اضطراب جب کسی ملک میں دیر تک اپنے خیمے گاڑ لیتے ہیں تو عجیب و غریب واقعات رونما ہونا شروع ہوجاتے ہیں،ملک کے ہر حصے میں‘ بڑے شہروں اور دیہات میں ہونے والے واقعات کا کچھ جائزہ لیا جائے

تو خوف و خدشات کے بادل ذہنی فضا پر چھا جاتے ہیں اور مایوسی کی دھند مزید گہری ہونے لگتی ہے ، اس مایوسی کی د ھند سے نئے انتخابات کے ذریعے نکلا جاسکتا ہے نہ ہی کسی سودہ بازی کے ذریعے بچا جاسکتا ہے،اس کیلئے سارے ہی سٹیک ہو لڈر کو ایک میز پر مل بیٹھنا ہو گا اور سارے بگڑتے معاملات کو سلجھانا ہو گا ،اپنی کوتاہیوں اور غلطیوں کا آزالہ کر نا ہو گا ،عوام کا ہی فیصلہ مانا ہو گا اورحقدار کو اس کا حق دینا ہو گا ، اس میں ہی سب کی بھلائی ہے ،ورنہ موجودہ تضادات و تصادم سب کوہی کسی ایسی گہری کھائی میں دھکیل دیے گا کہ جہاں سے نکلنا انتہائی مشکل ہو جائے گا ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں