ہمارے پشتینی علوم و آگہی کو مستقبل کی نوجوان نسل تک پہنچایاجانا چاہئیے
نقاش نائطی
۔ +966562677707
بھارتیہ کلچر ہزاروں سال پرانا کلچر ہے۔ حضرت آدم علیہ السلام کو جنت سے زمین پر جب اتارا گیا تھا تو اس وقت کی بھارت نگری سری لنکا کی آدم علیہ پہاڑی پر وہ اترے تھے۔ اس پہاڑی پر بہت بڑے سائز کے پیر کے نشان ابھی تک ہیں۔ طوفان نوح کے وقت جس علاقے سے پانی ابلنا شروع ہوا تھا اس کے بارے میں بھی مشہور ہے کہ وہ کیرالہ کے کسی تنور گاؤں سے پانی ابلنا شروع ہوا تھا۔ اس کا مطلب صاف ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام سے,حضرت نوح علیہ السلام تک,ہزاروں انبیاء اس پاک و صاف بھارتیہ سر زمین پر نازل ہوئے ہیں۔ قرآن مجید میں زبور و انجیل و تورات کے علاوہ صہوف اولی یا زبرالاولین کے نام سے جن آسمانی کتابوں کا تذکرہ کیا گیا ہے انکے بارے میں مشہور ہے
کہ وہ تمام آسمانی صہوف حضرت آدم علیہ السلام سے حضرت نوح علیہ السلام تک بعض نبیوں پر اتاری گئی آسمانی کتابیں، رگ وید، اتھر وید، یجر وید، یا مختلف اسمرتیوں کی شکل، بگڑی ہوئی حالت میں،ان سناتن دھرمی، یعنی کے صراط المستقیم والی ھندو قوم نے، ابھی تک سنبھال رکھی ہے۔ چونکہ یہ سناتن دھرمی ھندو قوم،چاند ستاروں کی نقل و حرکت سے دنیوی زندگیوں پر پڑنے والے اثرات کا بخوبی جائزہ لیتے ہوئے، ستاروں والے علم نجوم کی شروعات کی ہوئی تھیں اسلئے آسمان سے برسنے والی برسات کو، ان مخصوص اوقات،آسمان پر موجود چمکنے والے ستاروں کی نقل و حرکت کے اعتبار سے،چھ مستقل نام والے برسات کے موسم متعین کئے ہوئے تھے۔اور اس اس وقت آسمان سے برسنے والی برسات کی کیفیت و اثرات بھی بتا دئیے تھے
۔اور یہ سب انکے اپنے ماضی کے تجربات کی روشنی میں،مستقبل میں آنے والی انسانیت کی بھلائی کے لئے، قلمبند کئے گئے تھے۔ آج سے چالیس پچاس سال قبل ہمارے درمیان موجود ہمارے گھر کی بڑی بوڑھیاں فلاں نام والی بارش فلاں دن کے ساتھ شروع ہوگی اور ایسے برسے گی یہ سب کیفیات بتادیا کرتی تھیں۔ وہ جدت پسند زمانے کے اعتبار سے لاعلم یا انپڑھ ہوتے ہوئے بھی،آج کی جدت پسند اعلی تعلیم یافتگان سے، کہیں زیادہ ماحولیات کا علم رکھتی تھیں۔ہمیں یاد پڑتا ہے پچاس سال قبل ہماری پڑ نانی کے گھر سلطانی محلہ منڈے ھاؤس، ادھے گھر میں مقیم، ایک کمر جھکی بڑھیا رہائش پذیر تھیں۔وہ جھکے جھکے ہی قدم بقدم چلتے،
گھر کے پچھواڑے، کھلے میں جب وضو کرنے آتی تھیں تو ہمیں بتائی گئی معلومات تصدیق کے لئے، اس دادی اماں سے “اب وقت کیا ہوا ہے دادی اماں” ان سے جب ہم وقت پوچھا کرتے تھے تو وہ بڑھیا سورج کی روشنی سے، زمین پر پڑنے والے، چھت کے سائے کو دیکھ کر، اندازے سے ہی صحیح، دو چار پانچ منٹ تفاوت والا، صحیح وقت بتادیا کرتی تھیں۔ علم عصر جدید سے نابلد وہ ہمارے جدامجد، ماحولیاتی ہر علم کا گیان رکھتے تھے لیکن موجودہ جدت پسند دور کے ہم تعلیم یافتگان کو، پڑھائے اور سکھائے گئے،
علم کے سوا کچھ معلوم ہی نہیں ہوتا ہے۔ زمانے قدیم سے بتائے گئے مختلف وفقاتی بارش کے نام، ہماری جمع کی گئی معلومات کی حد تک مندرجہ ذیل ہیں۔اگر کسی کے علم میں اس سمت مزید معلومات ہو تو ہمیں براہ راست آگہی دلاسکتا ہے تاکہ ہمارے قلمبند کئے اور تمام تر مضامین کسی اخبار میں طبع ہوئے اور ہ دستان کے مختلف حصوں کے ویب پورٹل میں پوسٹ ہوئے، ہزاروں مضامین کو مستقبل میں کتابی شکل طبع کرتے ہوئے، ہمارے آنے والی جننریشن تک اسے منتقل کیا جاسکتا ہے۔ اقوام کی ترقی کوئی بھی کام بالکلیہ ابتداء سے شروع کئے جانے کے بجائے کسی اور کے تجربات وتحریر پر تحقیق کر اس سے آگے کام کرنے سے ضیاع وقت سے بچتے ہوئے بہت زیادہ خیر کے کام کئے جاسکتے ہیں
موسمی برسات کے مختلف نام جو ہمارے دادا پڑدادا سے زبان در زبان چلے آرہے ہیں وہ کچھ یوں ہیں۔ کرناٹک ملبار ساحلی پٹی پر غالباً ہر سال 7 جون سے شروع ہونے والی برسات چھ ستاروں کی نقل و حرکت کے حساب ہر پندرہ روزہ وقفاتی آیک تا چھ اقسام کی برسات ہوا کرتی ہیں 7 سے 10 نمبر والے نام والی برسات کے بارے میں کسی کو علم ہو تو شئر کریں۔ بانٹنے سے علم میں بڑھوتری ہوتی ہے۔ وما التوفیق الا باللہ