تقابل ہم والی دنیا مسلمین اور کفار و مشرکین سے
نقاش نائطی
۔ +966562677707
50 سال کی عمر میں ادتیہ برلا کے انتقال کے بعد 28سالہ کمار منگلم برلا کو برلآ ایمپائر کا سی ای او بننے کا اتفاق ہوا تو ٹائمز آف انڈیا کے نامہ نگار نے ان سے انٹرویو میں پہلا سوال پوچھا کہ اتنی کم عمر میں آپ نے اپنے آنجہانی والد کے کاروبار کو عالم کے ستر سے زیادہ ملکوں میں پھیلاتے ہوئے، اور سالٹ یعنی نمک سے دور جدید کی ریڑھ کی ہڈی سافٹ ویر تک بناتے ہوئے، باپ کے چھوڑے بزنس ایمپائر کو5 لاکھ کروڑ کے ایمپائر میں تبدیل کردیا ہے۔کیا آپ اتنی تجارتی مصروفیت کے بعد بھی، اپنی فیملی کے ساتھ وقت بتا پاتے ہیں؟ قبل اس کےکہ وہ جواب دہتے انکی بیوی نے جواب دیتے ہوئے
کہا کہ برلا ھاؤس کا ایک نئم و قانون ہے، شب 8 بجے گھر کے تمام لوگ اپنے اپنے موبائل گھر کی بڑی بزرگ امی جان یا نانی دادی جان کے پاس دے دیتے ہیں اور گھر کے تمام افراد ساتھ میں ٹیبل پر بیٹھ کھانا کھاتے ہیں اور کھاناختم ہوچکنے کے بعد بھی، اسی ٹیبل پر بیٹھے بیٹھے، گھر کے امور پر کھل کر تبادلہ خیال ہوتا ہے۔ تجارتی امور بھی ، گھر کے تمام مکین کے سامنے رکھے جاتے ہوئے،ہر کسی کو برلا ایمپائر کے بارے باخبر رکھتے ہوئے، صلاح مشورے لئے جاتے ہیں، پرانے خاندانی بزرگوں کے اوصاف کو نئی نسل کے سامنے رکھتے ہوئے،ان کے ذہنوں کو بھی خاندانی اسلوب پر ڈھالنے کی سعی ہوتی ہے
۔ساڑھے نو بجے گھر کے سبھی لوگوں کو انکے موبائل واپس دئیے جاتے ہیں کہ وہ اپنے اپنے بیڈ روم جاکر تجارتی نوعیت کے میسیجز کا جواب دے سکیں پھر رات کو سونے سے پہلے گھر کے ہرمکین کو پہلے سے دی گئی کتاب میں سے کچھ صفحات پڑھنے ہوتے ہیں جس پر دوسری شام کھانے کی ٹیبل پر کھانے بعد دوران گفتگو تبادلہ خیال کرنا پڑتا ہے تاکہ معلوم ہوسکے کہ واقعتاً ہر کسی نے کتاب پڑھی بھی ہے کہ نہیں ۔اس سے مطالعہ کا شوق بڑھتا ہے اور معلومات میں اضافہ بھی ہوتا اور ہر پندرہ بیس دن بعد ہر کوئی مخصوص معلوماتی کتابیں پڑھ چکے ہوتے ہیں۔
کچھ اسی طرح سے عالم کے اپنے وقت کے امیر ترین انسان وارن بفیٹ جن کا کاروبار سو بلین ڈالر سے زیادہ پرمشتمل ہے جب انسے کسی انٹرویو میں کسی نے لوچھا اتنے وسیع تر تجارتی صنعتی مصروفیات میں بھی کیا آپ اپنی فیملی کے لئے وقت نکال پاتےہیں تو اس وقت وارن بفیٹ نے بھی ایسا ہی کچھ جواب دیا تھا
کہ صبح 8 بجے سے شام 6 بجے تک 16 گھنٹہ تجارت کے لئے مختص ہوتے ہیں،شام 6 سے 9 تک تین گھنٹہ مکمل فیملی کے لئے ہوتے ہیں۔پھر شب 9 سے ساڑھے دس تک ڈیڑھ گھنٹے معلوماتی اضافے اور مذہبی معمولات نبھانے کے لئے مختص رکھے جاتے ہیں اور پھر دوسرے دن کے لئےتازہ دم ہونے اپنے آپ کو بستر کے حوالے کرنا پڑتا ہےیہ دو ھند و عالم کے بڑے نامی گرامی تجار و صنعت کار سرمایہ داروں کے حقائق ہیں۔کیا عالم کے ہم 200 کروڑ مسلمانوں میں سے کوئی ان سے بڑا تاجر و صنعت کار ہے؟
پھر کیوں متعین مقدار رزق و وقت موت، متعین ہونے پر ایمان و یقین کامل رکھنے والے ہم مسلمان، کسی بھی معاش سے منسلک،تاجر و صنعت کار ہی کیوں نہ ہوں اپنے اہل و عیال کے ساتھ وقت بتانے ہمیں فرصت کیوں نہیں ملتی ہے اور نہ ہم اپنے پیدا کرنے والے خالق و مالک و رازق کی رضا کے لئے وقت نکال پاتے ہیں؟ اسکا مطلب صاف ہے ہم قولی مسلمان ہیں۔ رزق متعین اور وقت موت بھی متعین ہونے کا بھلے ہی ہم ایمان و
یقین رکھنے کا کہیں لیکن، ہمیں اپنے رب کی رزاقیت پر ان تونگر ترین برلا و بفیٹ مشرک و مسیحی کہ ملحد سے کم بہت کم، اپنے رزاق کی رزاقیت پر بھروسہ ہے۔ اللہ ہی سے دعا ہے کہ وہ ہمیں ایمان مفصل میں رٹے رٹائے گئے تمام امور و اقدار پر آپنے رب رزاق دو جہاں پر بھروسہ کرنے والے سلف صالحین اپنے اسلاف جیسا قوی تر ایمان والے مسلمانوں میں سے بنائے۔وما التوفیق الا باللہ