Site icon FS Media Network | Latest live Breaking News updates today in Urdu

“آبادی میں جس کی جتنی سنکھیا اس کی اتنی حصہ داری” بہوجن سماج پارٹی فاؤنڈرکانشی رام

کل ماضی کا محبت بھرا رکشا بندھن اور آج کے سنگھی منافرتی ہندو تہوار

کل ماضی کا محبت بھرا رکشا بندھن اور آج کے سنگھی منافرتی ہندو تہوار

“آبادی میں جس کی جتنی سنکھیا اس کی اتنی حصہ داری” بہوجن سماج پارٹی فاؤنڈرکانشی رام

نقاش نائطی
۔ +966562677707

“آبادی میں جس برادری کی جتنی تعداد، حکومتی نوکریوں میں، انہیں انکے لئے اتنی ہی نوکریاں محفوظ رکھی جانی چاہئیے” اگر ابادی کے تناسب سے ریزرویشن دینا ممکن نہ بھی ہو تو، آبادی تناسب کے نصف ریزرویشن تو، ہر کسی کو دیا جاسکتا ہے۔اس سے کل ریزرویشن 50 فیصد کے اوپر نہ جاتے ہوئے، سپریم کورٹ فیصلہ کی پاسداری بھی ہوگی اور دیش کے تمام قوموں فرقوں کو دیش کی ترقیاتی منصوبوں میں کماحقہہ تناسب برقرار رکھنے میں مدد بھی ملیگی۔موجودہ سنگھی مودی رام راجیہ حکومتیں، حکومتی تمام تر معاملات میں،قانون وعدلیہ کی سفارشات کو یکسر پس پشت رکھے،

ہر عہدے کے لئے،برہمنوں کا ہی،انتخاب کئے، حکومتی اہم عہدوں پر، بھرتی کیا کرتے ہیں اور یہ سنگھی حکمرانوں کی انکے برہمنی پالیسیز کے تحت،ہزاروں سال قبل کے منواسمرتی والے رام راجیہ،دلت بریمن چھوت چھات پر مبنی،برہمنی اقتدار کی بحالی کے لئے دانستہ کیا جاتا ہے۔اسی لئے تو مہا شکتی سالی سنگھی ویر سمراٹ،مہان مودی جی کے دس سالہ مرکزی رام راجیہ میں، برائے نام بھی، اس دیش کی سب سے بڑی20% اقلیت ہم 300 ملین مسلمانوں کی حصہ داری کو،عالم کے سب سے بڑے جمہوری ملک کے ایوانوں میں رکھنا بھی ضروری نہیں سمجھا گیا ہے۔ اور اس دس سالہ رام راجیہ میں،تمام سرکاری اعلی تعلیمی مشروط بھرتیوں پر، قانون و عدلیہ سفارشات کو، یکسر درکنار کئے،

برہمنوں کوہی دانستہ بھرتی کیا گیا ہے۔سچر کمیٹی کے اس اعتراف کے بعد کہ بعد آزادی، جہاں، ان حکومتی ریزرویشن کی وجہ سے، ایک حد تک دلت پچھڑی جاتی بھارت واسی، حکومتی نوکریاں پاچکے ہیں، وہیں 15% سے 20% مسلم آبادی، تین سے چار فیصد بھی حکومتی نوکریاں پانے میں ناکام و مایوس رہی ہیں۔اس کا حل جو ہمیں نظر آتا پے چونکہ سپریم کورٹ نے سرکاری نوکریوں پر 50% سے زیادہ ریزرویشن پر پابندی عائد کی ہوئی ہے، اسلئے بھارت میں،بشمول برہمنزم،مسلم،سکھ، دلت، آدی واسی، پچھڑی جاتی کے، بھارت میں سکونت پذیر،ہر فرقہ ہر مذہب کے لوگوں کی آبادی میں،

انکے آبادی شراکت ،کل تعداد کے نصف فیصد، انہیں سرکاری نوکریوں اور سیاسی اقدار میں حصہ داری دی جائے، اس سے کل فرقہ،ذات برادری کو دیش کی ترقیاتی منصوبوں میں نصف تعداد ہی صحیح، حصہ داری بھی ملیگی اور کل ریزوریشن 50% سے زیادہ بھی نہیں تجاوز کرپائیگا۔ باقی 50 فیصد عہدے نوکریاں اپنی اپنی استعداد،اقدار و حیثیت و صلاحیت کے اعتبار سے مسابقتی انداز حاصل کئے جاسکیں گے

رہی بات مودی یوگی سنگھی حکمرانوں نے،اپنے عہدے کا غلط استعمال کئے، قانون وعدلیہ کی سفارشات کو درکنار کئے، اس دس سالہ سنگھی دور حکومت میں، جتنی بھی بھرتیاں کی ہوئی ہیں، عدلیہ عالیہ حکم امتناعی، بیک جنبش قلم سے، ان تمام بھرتیوں کو رد کئے جاتے،دوبارہ بھرتیاں عمل میں لائی جانی چاہئیے۔ اس سے مستقبل میں کسی بھی نازی حکمران کو،قانون و عدلیہ سفارشات کی کھلی خلاف ورزی کی ہمت باقی نہ رہے گی اور دیش کے تمام باشندگان ھندو مسلم سکھ عیسائی دلت، آدیواسی، پچھڑی جاتی سبھوں کو، دیش کی ترقیات،حصہ داری کا مناسب موقع بھی ملیگا اور کسی کو بھی، زبردستی حکومتی مشینری کا غلط استعمال کر، انکے خلاف جھوٹ افترا پروازی پر مبنی نفرت پھیلاتے ہوئے

، دیش کے ترقیات منصوبوں سے، انہیں ماورا رکھا نہیں جاسکے گا اور سب سے اہم بات، سابقہ دس سالہ سنگھی رام راجیہ میں، ہم مسلمانوں کے خلاف سازشانہ انداز سرکاری سطح پر،جو نفرت انگیز ماحول پیدا کیا گیا تھا اس سے بھی ایک حد تک ماورائیت حاصل ہوگی۔اس لئے، ابھی اقتدار سے دور رہے اپوزیشن دھڑے، کانگرئس سمیت تمام خود ساختہ نام نہاد سیکیولر پارٹیوں سے التماس ہے کہ دیش کے تمام مذہبی فرقوں گروہوں کو،دیش کی ترقیاتی حصہ داری میں ساتھ لینے والا کوئی ٹھوس لاحیہ عمل عوام کے سامنے پیش کریں اور سب کا ساتھ سب کا وکاس والے، مہان مودی جی کے، ڈھکوسلے نعرہ پر عملدرآمد کر، دکھاتے ہوئے، اگلے کچھ سالوں میں، عالمی سطح پر دیش کو، ترقیات کے اعلی مدارج طہ کراتے ہوئے حقیقتاً، دیش کو نامور کرایا جائے۔ وما التوفئق الا باللہ۔

Exit mobile version