گندم سفری سیمینار زرعی سائنسدانوں کے لئے اہمیت کا حامل ہے۔سید مظفر شاہ
اسلام آباد (رپورٹ:فائزہ شاہ کاظمی) بین الاقوامی ادارہ برائے مکئی اور گندمسی آئی ایم ایم وائے ٹی کی جانب سے پاکستان زرعی تحقیقاتی کونسل سے ملحق ادارے بارانی زرعی تحقیقاتی اسنٹی ٹیوٹ، عمرکوٹ ، سندھ کے مقام پر ایک روزہ گندم سفری سیمینار برائے سال 2019 کا انعقاد کیا گیا۔
سیمینار کا مقصد سندھ میں گندم کی کاشت کے لئے نئی اقسام کا متعارف کرانا اور بیماریوں سے پاک گندم کی پیداوار کا فروغ دینا تھا۔اس سلسلے میں گندم کے ماہرین نے عمر کوٹ کے نزدیک مظہر داس زرعی فارم کا دورہ کیا جہاں کاشت کی جانے والی گندم کی قسم ٹی جے 83گندم کے زرد پتے کی بیماری کا شکار پائی گئی۔
زرعی ماہرین نے گندم کی فصل کو لگنے والی بیماری کے متعلق اپنی رائے اکا اظہار کیااور کہا کہ اس کی وجہ موسمیاتی تبدیلی اور موسم سرما کا طویل ہونا ہے۔
ماہرین نے اس بات کا خیال ظاہر کیا گندم کی ان نئی اقسام کی کاشت کو یقینی بنایا جائے جو موسمیاتی تبدیلی سے متاثر نہ ہوں نیز گندم کی بوائی کے لئے ڈرلنگ کے طریقہ کار کا استعمال، کھادوں کا مناسب استعمال، بیج کی مناسب مقدار، پانی کا بروقت استعمال یقنی بنایا جائے۔زرعی ماہرین کے وفد نے کرنی سندھ زرعی فارم کا بھی دورہ کیا جہاں ناہموار زمین پر بے نظیر 13گندم کی قسم کاشت کی گئی تھی ۔
ماہرین نے بے نظیر 13 گندم کی قسم کی کاشت ، سائزپر اطمینان کا اظہار کیا۔ اس موقع پر بارانی زرعی تحقیقاتی انسٹی ٹیوٹ ، عمرکوٹ سندھ میں ایک تقریب کا بھی اہتمام کیا گیا۔ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے سید مظفر شاہ، چیئر مین قائمہ کمیٹی برائے وزارت غذائی تحفظ و تحقیق نے کہا کہ گندم سفری سیمینار گندم کاشت کرنے والے کسانوں اور زرعی سائنسدانوں کی باہم ملاقات کا ایک بڑا ذریعہ ہے ۔
اس سیمینار کے ذریعے سے کاشت کار حضرات کو اپنی فصل کے مسائل سے ادراک اور آگاہی حاصل ہوتی ہے
نیز زرعی سائنسدانوں کو فصل کو پیش آنے والی بیماریوں پر بہتر طریقے سے کام کرنے میں مدد حاصل ہوتی ہے تا کہ نئی ٹیکنالوجی کے استعمال سے گندم کی فصل کی پیداوار میں اضافہ اور بیماریوں سے تدارک ممکن بنایا جا سکے۔ ڈاکٹر منیر احمد، چیئر مین ، پاکستان زرعی تحقیقاتی کونسل نے اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ گندم سفری سیمینار ایسا ذریعہ ہے جس سے کاشتکار اور زرعی سائنسدانوں کو اپنی فصل کے متعلق اپنے خیالات کے تبادلہ کرنے کا موقع حاصل ہوتا ہے اور اس میں شامل ہونے والے افراد ایک دوسرے کے تجربات سے بہتر آگاہی حاصل کرتے ہیں۔نوجوان سائنسدان تجربہ کار بریڈرز اور سینئر سائنسدانوں سے بہت کچھ سیکھتے ہیں۔
چیئر مین، زرعی تحقیقاتی کونسل نے مزید کہا کہ سندھ کی زرخیز ز مین کا زرعی مفادات کے حصول کے لئے مناسب طور پر نہیں کیا گیانیز سندھ میں گندم کی فصل موسمیاتی تبدیلیوں سے بھی متاثر ہوئی ہے۔ڈاکٹر عطاء اللہ خان، ڈائریکٹر، زرعی تحقیقاتی انسٹی ٹیوٹ، عمرکوٹ نے گندم کی فصل میں استعمال ہونے والی “گرین سیکر ڈیوائس”ذریعے گندم کی نئی ورائٹی بے نظیر 13اور سندھو 16 کی بیجائی کا طریقہ کار، پانی کا لیول ، گھاس کی تلفی اور نائٹروجن ڈائریکشن کے بارے میں شرکاء کو تفصیلی بریفنگ دی۔
اس کے علاوہ ڈاکٹر عطاء اللہ خان نے زرعی مرکز، عمر کوٹ میں زرعی تحقیقات پر ہونے والے کاموں کے بارے میں بھی شرکاء کو تفصیل سے آگاہ کیا۔ سیمینار کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر عبدالغفور، ممبر پلانٹ سائنسز، پی اے آر سی نے کہا کہ پی اے آر سی کا عمر کوٹ میں قائم بارانی زرعی تحقیقاتی انسٹی ٹیوٹ نے کاشتکاروں کی سہولت کے لئے نئے نظام متعارف کرائے ہیںاور یہ ابھی کام کی شروعات ہے
نیز عمر کوٹ کے ادارے نے کھاری زمین پر زراعت کی کاشت اور پیداوار میں اضافے کے لئے بہت بہتر ین کام کیا ہے۔
پاکستان زرعی تحقیقاتی کونسل تھر کے علاقے میں زراعت کی پیداور کے فروغ اور عام لوگوں کے معیار زندگی کو بہتر بنانے کے لئے اپنی زرعی تحقیقاتی کاوشیں جاری رکھے گا۔ سیمینارکے دیگر شرکاء میں
ڈاکٹر عتیق الرحمن رتو، کوآرڈینیٹر برائے گندم، پی اے آرسی، پروفیسر فدا محمد، پشاور یونیورسٹی، ڈاکٹر کریم بخش لغاری، ڈائریکٹر ، ادارہ برائے زرعی تحقیقاتی انسٹی ٹیوٹ، سکرنڈ،کسان ، این جی اوز کے نمائندے و دیگر شامل تھے ۔