Site icon FS Media Network | Latest live Breaking News updates today in Urdu

نئی نسل کو تمباکو نوشی سے بچانے کے لیے ہمیں جنگی بنیادوں پر کام کرنا ہو گا،رناء اللہ گھمن

نئی نسل کو تمباکو نوشی سے بچانے کے لیے ہمیں جنگی بنیادوں پر کام کرنا ہو گا،رناء اللہ گھمن

اسلام آباد(بیورو رپوٹ)تمباکو انڈسٹری نت نئے حربوں سے نوجوانوں کو ہلاکت خیزیوں میں مبتلاء کر رہی ہے۔ ہر روز 1200نئے بچے تمباکو نوشی شروع کر رہے ہیں۔اگر ہم نے اسے قومی المیہ سمبھ کر جنگی بنیادوں پر اس کے خلاف کام نہ کیا تو ہماری آنے والی نسلوں کو اس کے تباہ کن نتایج بھگتنا پڑیں گے۔یہ بات ماہرین صحت نے اسلام آباد کے مقامی ہوٹل میں پاکستان نیشنل ہارٹ ایسوسی ایشن کے زیر اہتمام “Tobacco Industry’s New Marketing Methods to Hook Young on Smoking”کے موضوع پر منعقدہ ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوے کہی۔

تقریب میں صحت کے ماہرین، سول سوسائٹی اور الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے نمائندوں نے شرکت کی۔ تقریب کی میزبانی PANAH کے جنرل سیکرٹری ثناء اللہ گھمن نے کی۔
تقریب سے خطاب کرتے ہوئے جناب ثناء اللہ گھمن نے کہا کہ PANAH گزشتہ 4 دہائیوں سے لوگوں میں دل کی بیماریوں سے بچاؤ کے حوالے سے شعور اجاگر کر رہا ہے۔آگاہی کی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ، PANAH قانون اور پالیسی سازوں کے ساتھ مل کر دل کی بیماریوں کے بڑھتے ہوئے خطرے کو ختم کرنے کے لیے پالیسیاں بنانے کے لیے بھی کام کر رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ورلڈ ہیلتھ آرگنا ئزیشن کی016 2 کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں سالانہ 8 لاکھ سے زیادہ اموات دل اور اس سے متعلقہ امرا ض سے ہو رہی ہیں

۔ تمباکو نوشی دل کی بیماریوں کی سب سے بڑی وجوہات میں سے ایک ہے۔ پناہ نے ہر سطع پر اپنی آواز بلند کی ہے تا کہ نوجوانوں کو تمباکو کی ہلاکت خیزیوں سے بچائے لیکن تمباکو انڈسٹری نت نئے حربوں کے ساتھ زیادہ سے زیادہ نوجوانوں کو اس لعنت کی طرف مائل کر رہی ہے۔پناہ نے ان وجوہات کو جاننے کے لیے ایک Tinny Target Surveyکیا اس سروے کے نتائج چشم کشاہ تھے۔ پاکستان میں ہر روز 1200نئے بچے تمباکو نوشی شروع کر رہے ہیں۔ تمباکو انڈسٹری کا خصوصی ہدف بچے ہیں۔ سکولوں کے ارد گرد بہت بڑی تعداد میں تمباکو کی مصنوعات فروخت کی جاتی ہیں

اور تمباکو کی ملٹی نیشنل کمپنیاں سکولوں کے قریب اپنی مصنوعات کی فروخت پر ذیادہ فوکس کرتی ہیں۔سکولوں کے آس پاس دکانوں میں تمباکو نوشی کی مصنوعات کی تشہیر کی جاتی ہے۔ دکاندار بچوں کو کھلے سیگریٹ فروخت کرتے ہیں تاکہ وہ بچے بھی سیگریٹ خرید سکیں جو پورا پیکٹ نہیں خرید سکتے۔ تمباکو کی مصنوعات کو ایسی جگہ رکھا جاتا ہے کے بچے ان کی طرف متوجہ ہوں جیسے ٹافیوں اور چاکلیٹس کے ساتھ۔ انہوں نے کہا کہ اگر ہمیں اپنے ملک کا مستقبل محفوظ بنانا ہے اور بچوں کو نشے کی اس لعنت سے

محفوظ رکھنا ہے تو حکومت کو اس طرف توجہ کرنی پڑھے گی اور اس قانون پر سختی سے عملدرامد یقینی بنانا ہو گا جس کے مطابق سکولوں سے 50 میٹر کے فاصلے تک تمباکو نوشی کی مصنوعات پر پابندی ہے۔ دکانوں میں ان مصنوعات کی تشہیر پر اور کھلے سیگریٹ کی فروخت پر پابندی ہے۔ انہوں نے کہا کہ (FCTC)-کے آرٹیکل 5 کی شق 3کے

مطابق انڈسٹری کے لوگ قانون ساز اداروں کے لوگوں سے براہ راست نہیں مل سکتے تا کہ تمباکو کے متعلق پالیسیز کو انڈسٹری کے مفادات سے محفوظ رکھا جا سکے لیکن پاکستان میں تمباکو کمپنی کے مالکان کو پالیسی سازی کے ادارے میں نمائندگی حاصل ہے جو تمباکو نوشی سے نمٹنے کے لیے موثر پالیسیاں بنانے میں ایک رکاوٹ ہے۔ مقررین نے اس بات پر زور دیا کہ نوجوان نسل کو تمباکو نوشی کی ہلاکت خیزیوں سے بچانے کے لیے حکومت کو ہر ممکن اقدامات کرنے چاہییں تاکہ ہم آنے والی نسل کو ایک صحت مند پاکستان دے سکیں۔
حسنہ خٹک۔ میڈیا کوارڈینیٹر۔ پناہ

Exit mobile version