عوام کا دمادم مست قلندر ہو کر رہے گا !
آٹھ فروری کو انتخابات کرانے کا اعلان ہو چکا ہے اور سپریم کورٹ کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اسے حتمی تاریخ بھی قراردے دیا ہے، اس کے باوجود چند ہفتے بعد ہونے والے ان انتخابات کے انعقاد پر ابھی تک بے یقینی کے سائے چھائے ہوئے ہیں، مولانا فضل الرحمن کی جانب سے پے در پے انتخابات ملتوی کرنے کے اعلانات ہوں یا سینٹ میں پر اسرار طریقے سے الیکشن کے التواکی قرار داد کی منظوری ہو، ایسالگتا ہے کہ جیسے اگلے چند دنوں یا ہفتوں میں کچھ غیر معمولی اقدامات اور واقعات ہونیوالے ہیں۔
اس وقت عام انتخابات میں محض بائیس دن رہ گئے ہیں ،اس کے باوجود کوئی خاص گہما گہمی دکھائی نہیں دیے رہی ہے ، ایک طرف پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) قیادت اپنی انتخابی مہم چلا رہے ہیں تو دوسری جانب انتخابات کے متنازع ہو نے کے ساتھ التوا کی باتین ہورہی ہیں ،الیکشن کمیشن ، عدالت عظمیٰ اور دیگر ذمہ دار ادارے بار بار کہہ رہے ہیں کہ انتخابات بروقت اورمنصفانہ شفاف ہوں گے،
اس کے باوجود انتخابی عمل مشکلات کا ہی شکار دکھائی دے رہا ہے،مسلم لیگ (ن) کی طرف سے تو ایک ہی تاثر بار باردیا جا رہا ہے کہ اسے اگلی حکومت سونپی جا رہی ہے،یہ تاثر لوگوں کو گمراہ کر رہا ہے کہ مسلم لیگ (ن )خود ہی اعلان کر رہی ہے کہ آئندہ انتخابات شفاف نہیں ہوں گے۔
اگر دکھا جائے توملک میںجب سے انتخابات کا اعلان ہوا ہے ،مسلم لیگ (ن )کے علاوہ ساری ہی جماعتیں لیول پلئینگ فیلڈ کا مطالبہ کر رہی ہیں،
جبکہ مولانا فضل الرحمان خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں دہشت گردی اور شدید سردی کو جواز بنا کر انتخابات کچھ مدت کے لئے ملتوی کرنے کی تجویز دے رہے ہیں،اگران امور کو پیش نظر رکھا جائے تو غیر یقینی کی صورتحال پیدا ہو جاتی ہے، اس کا رفع ہونا انتہائی ضروری ہے ،مگر ایسا کچھ بھی نہیں کیا جارہا ہے،اُلٹا مزید ابہام پیدا کیا جارہا ہے، سپریم کورٹ کی جانب سے پی ٹی آئی کے انتخابی نشان پر فیصلہ آنے کے بعد سے انتخابات کے بارے شک وشبہات میں مزید اضافہ ہی دکھائی دیے رہا ہے۔
یہ کتنی ستم ظریفی ہے کہ ایک طرف شفاف انتخابی عمل کے بارے شک وشبہات بڑھتے جارہے ہیں تو دوسری طرف انتخابی عمل حتمی مرحلے تک آپہنچا ہے، لیکن سیاسی جماعتیں ابھی تک اپنا منشور ہی سامنے نہیں لا پائی ہیں،زبانی کلامی سبھی کہہ رہے ہیں کہ پاکستان سیاسی عدم استحکام کا شکار ہے، معاشی بحران ختم ہو نے کا نام نہیں لے رہاہے، ملک میں آئے روزمہنگائی بڑھتی جا رہی ہے، بیروزگاری میں اضافہ ہو رہا ہے
ملک میں دہشت گردی بڑھتی جارہی ہے ،لیکن سویلین قیادت اپنی ذمہ داریاں سمجھنے کیلئے تیار ہے نہ ہی اپنی ناہلیوں کا بوجھ اُٹھارہی ہے، سارا بوجھ ہی مسلح افواج اور عسکری قیادت پر ڈالا جارہاہے اور انہیں سے بہتری کی توقعات وابستہ کی جارہی ہیں اور بعدازاں انہیں ہی مود الزام ٹہرایا جاتا ہے۔
یہ کتنی عجب بات ہے کہ انتخابات میں چند روز رہ گئے ہیں اور سیاسی قیادت کے پاس آئندہ کا کوئی لائحہ عمل دکھائی ہی نہیں دیے رہا ہے،الیکشن میں حصہ لینے سے پہلے سیاسی جماعتوں کو بتانا چاہئے کہ ملک کی بہتری کے لئے ان کے پاس کیا منصوبہ اور کیا قابل عمل پلان ہے، پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ قیادت وہی اپنے پرانے بیانیے دہرائے جارہے ہیں
اور عوام کو بتا رہی ہیں کہ اب میدان میں ہم دونوں ہی ہیں ، ہم دونوں میں سے ایک نے ہی بر سر اقتدار آنا ہے ، جبکہ عوام کی سوچ بر عکس دکھائی دیتی ہے ،عوام اب آزمائے بہلائوں اور بہکائوں میں آنے والے نہیں ہیں ، عوام اب آزمائے لوگوں سے چھٹکارہ چاہتے ہیں ، مگر ایک بار پھر ان پر آزمائے ہی مسلط کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ،یہ زور زبر دستی کے فیصلے کار آمد رہیں گے نہ ہی ان کے نتائج اچھے نکلیں گے ،کیو نکہ آزمائے سے بہتری کی توقع کرنا خود کو دھوکہ دینے کے مترادف ہے
، لیکن یہ بات فیصلہ سازوں کی سمجھ میں ہی نہیں آرہی ہے ۔اس ملک میں بظاہر ہر کوئی عوام کی بات کرتا ہے ، عوام کوہی طاقت کا سر چشمہ بھی قرار دیتا ہے ،لیکن عوام کو آزادانہ حق رائے دہی دیا جارہا ہے نہ ہی عوام کو فیصلہ سازی میں شامل کیا جارہا ہے ،اس کے نتائج پہلے اچھے نکلے ہیں نہ ہی آئندہ اچھے نکلتے دکھائی دیے رہے ہیں ،اس کے باوجود یکھنا ہے کہ اس بار آگے کیسے بڑھنا ہے،کیا اِس ملک میں جمہوریت کو اعتبار دینا ہے؟ کیا عوام کی رائے کو عزت بخشنی ہے؟ کیا انتخابات کو شفاف اور غیر جانبدارانہ بنانا ہے
یا اب بھی کوئی کسر باقی ہے کہ جس کے خوف سے ابھی بہت کچھ مزید کرنا پڑے گا اور عوام کو بہت کچھ مزید برداشت کر نا پڑے گا۔عوام کے صبر کا پیمانہ لبر یز ہو تا جارہا ہے ، عوام مزید کچھ برداشت کر نے کیلئے تیا ر ہیںنہ ہی زور زبر دستی پر خاموش رہیں گے، عوام زبانی کلامی دعوئوں پر یقین کر یں گے نہ آمائے سے مزیددھوکہ کھائیں گے نہ ہی دوسروںکے فیصلوں کے آگے سر جھکائیں گے،
اس لیے اہل سیاست کے ساتھ اہل طاقت کو بھی اپنے روئیوں پر غور کر نا ہو گااپنے سوچ و فکرمیں تبدیلی لانا ہو گی ،عوام کے حق رائے دہی اور عوام کے فیصلے کو پزی آرائی دینا ہو گی ، اگر اس بار بھی عوام کو آزادانہ رائے کے اظہار کا بر وقت موقع نہ دیا گیا اور عوام کے ہی فیصلے کو نہ مانا گیا تو پھر ایسا عوام کا دما دم مست قلندر ہو گا کہ جیسے کوئی بھی روک نہیں پائے گا