گھریلو ملازمہ طیبہ تشدد کیس: سابق جج اور اہلیہ کو ایک، ایک سال قید کی سزا
اسلام آباد ہائیکورٹ نے گھریلو ملازمہ طیبہ پر تشدد کے کیس میں نامزد سابق ایڈیشنل سیشن جج راجہ خرم علی خان اور ان کی اہلیہ ماہین ظفر کو ایک، ایک سال قید اور 50، 50 ہزار روپے جرمانے کی سزا سنا دی۔
طیبہ تشدد کیس کا فیصلہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے جج جسٹس عامر فاروق نے سنایا، جو 27 مارچ 2018 کو محفوظ کیا گیا تھا۔
سابق جج اور ان کی اہلیہ کو تعزیرات پاکستان کی دفعہ 328 کے تحت سزا سنائی گئی ہے، جس کے مطابق 12 سال سے کم عمر بچوں کو ملازمت پر رکھنا جرم ہے۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے جج جسٹس عامر فاروق نے کیس کا 21 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلہ بھی جاری کردیا ہے۔
سابق جج کی درخواست ضمانت
دوسری جانب طیبہ تشدد کیس میں سزا پانے والے سابق ایڈیشنل سیشن جج راجہ خرم علی خان نے اسلام آباد ہائیکورٹ میں ضمانت کی درخواست دائر کی تھی جو سماعت کے لیے منظور کرلی گئی ہے۔
درخواست میں مؤقف اپنایا گیا کہ سزا ایک سال سےکم ہوتو ضمانت دی جا سکتی ہے، سزا کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کریں گے، اس لیے ضمانت دی جائے، اپیل دائر کرنا ہمارا بنیادی حق ہے۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے جج جسٹس عامر فاروق درخواست ضمانت پر سماعت کریں گے۔
واقعے کا پس منظر
کمسن گھریلو ملازمہ طیبہ پر تشدد کا واقعہ 27 دسمبر 2016 کو پیش آیا تھا اور پولیس نے 29 دسمبر کو سابق ایڈیشنل سیشن جج راجا خرم کے گھر سے طیبہ کو تحویل میں لیا تھا۔
تشدد کے واقعے میں ملوث دونوں ملزمان کے خلاف تھانہ آئی نائن میں مقدمہ درج کیا گیا تھا۔
3 جنوری 2017 کو کیس میں اہم موڑ آیا اور طیبہ کے والدین کی جانب سے راجا خرم اور ان کی اہلیہ کو معاف کرنے کی رپورٹس سامنے آئیں، تاہم راضی نامہ سامنے آنے پر چیف جسٹس ثاقب نثار نے معاملے کا از خود نوٹس لیا تھا۔
سپریم کورٹ کے حکم پر پولیس نے 8 جنوری 2017 کو طیبہ کو بازیاب کرا کے پیش کیا تھا جبکہ عدالتی حکم پر 12جنوری 2017 کو راجا خرم علی خان کو بطور جج کام کرنے سے روک دیا گیا تھا۔
بعدازاں چیف جسٹس آف پاکستان نے مقدمے کا ٹرائل اسلام آباد ہائیکورٹ کو بھجوادیا تھا جہاں 16 مئی 2017 کو ملزمان پر فرد جرم عائد کی گئی تھی۔
اس مقدمے میں مجموعی طور پر 19 گواہان کے بیانات قلمبند کیے گئے جن میں 11 سرکاری جبکہ طیبہ کے والدین سمیت 8 غیر سرکاری افرادشامل تھے