حیدرآباد میں ایم کیو ایم تقسیم در تقسیم کا شکار، ووٹ کا حصول کڑا امتحان
حیدرآباد: متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان میں دھڑے بندی کے باعث سندھ کے دوسرے بڑے شہر حیدرآباد میں ایم کیو ایم تقسیم در تقسیم کا شکار ہوگئی اور کئی سالوں سے شہری علاقوں میں نشستیں جیتنے والی اس جماعت کے لیے 2018 کے الیکشن میں کامیابی حاصل کرنا بڑا امتحان بن گیا ہے۔
1988 سے 2013 تک انتخابات کے ذریعے ایم کیو ایم حیدرآباد سمیت سندھ کے شہری علاقوں کی سیاست میں براجمان رہی اور اپنی مخصوص سیٹوں پر کامیابی حاصل کرتی رہی۔
پیپلز پارٹی ہو، مسلم لیگ (ن) کی حکومت ہو یا جنرل (ر) پرویز مشرف کا دورِ حکومت، ایم کیو ایم کی سیاست کا محور کم و بیش سندھ کے شہری علاقوں میں بس اقتدار کا حصول ہی ٹھہرا لیکن عوام کے مسائل جوں کے توں منہ چڑا رہے ہیں۔
شہریوں کا کہنا ہے کہ ایم کیو ایم کی کوئی پالیسی نظر نہیں آتی، یہ جماعت خود افراتفری کا شکار اور ٹکڑوں میں بٹی ہوئی ہے۔
حیدرآباد کے شہری اس بات پر بھی نالاں ہیں کہ محض ایک آدھ سڑک بنادینے سے کچھ نہیں ہوتا، شہر میں تعلیم اور صحت کے حوالے سے کچھ بھی نہیں کیا گیا۔
دوسری جانب پاک سرزمین پارٹی کے قیام اور ایم کیو ایم پاکستان میں تقسیم در تقسیم کی پالیسی سے کارکنوں کے ساتھ ووٹرز بھی خائف نظر آتے ہیں اور پارٹی پالیسی سے نالاں ہیں۔
حالیہ عام انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف، متحدہ مجلس عمل (ایم ایم اے)، گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس، تبدیلی پسند پارٹی، سندھ ترقی پسند پارٹی اور یونائیٹڈ پارٹی نے صوبے میں پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے خلاف میدان سجایا ہے۔
ایسے میں ایم کیو ایم پاکستان اپنی اکثریت برقرار رکھتی ہے یا نہیں اس کا فیصلہ شہری 25 جولائی کو اپنے ووٹ کے ذریعے کریں گے۔